وقت پر فیصلہ ہی ہمیں پچھتاووں سے بچا سکتا ہے

بدھ 25 جولائی 2018

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

بد قسمتی کے ساتھ ہمارا شمار بطور قوم ایسی قوموں میں کیا جاتا ہے جو وقت پر فیصلے نہیں کرپاتی اور بعد میں پھر پوری زندگی اس پچھتاوے کی نظر کر دیتی ہے ۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایسی کوئی ٹریننگ ، کوئی لائحہ عمل یا کو ئی نصاب موجود نہیں جو دور طالعبعلمی سے ہی لوگوں میں وقت پر فیصلے کر نے کا شعور پیدا کرے اور پھر تمام زندگی پچھتاووں کے بغیر خوش حال اور آسانی والی زندگی بسر کرنے میں ان کامعاون ثابت ہو سکے ۔

ظلم تو یہ ہے کہ یہ کمزوری صرف عام عوام کے اندر ہی نہیں پائی جاتی بلکہ ہمارے بڑے بھی کچھ ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں ۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ آئے روز سابق حکمرانوں، سیاستدانوں جرنیلوں ، ججوں اور سینئیر بیوروکریٹس اپنے سامنے ہونے والی زیادتیوں پر تو خاموش رہتے ہیں لیکن جیسے ہی ریٹائرڈ ہوتے ہیں تو پھر کسی پریس کانفرنس میں ، کسی کالم میں یا اپنی کتاب میں ایسے ایسے مظالم اور زیادتیوں کے راز افشاء کرتے ہیں ۔

(جاری ہے)

اگر وقت پر ایسی زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کر دی جاتی اور ان کا قلع قمع کر دیا جاتا تو شاید مملکت عظیم کو آج ایسے حالات کا سامنا نہ کر ناپڑتا ۔ لیکن چونکہ وقت پر کچھ نہ کر نا ، ہمارا وطیرہ بن چکا ہے لہذا وقت گذر جانے کے بعد انہیں ایسے راز افشا ء کر کے اپنے حق میں نعرے لگوانے کے نشے کو پورا کرنے کے علاوہ اور کچھ میسر نہیں آتا۔
قارئین !ایک ایسا ہی منظر کچھ روز قبل دیکھنے کو ملا جب پاکستان کے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف جو اڈیالہ جیل میں اپنے کردہ اور نا کردہ گناہوں کی سزا بھگت رہیں کی طرف سے سامنے آیا کہ انہوں نے اڈیالہ جیل میں فلاحی کام کر نے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔

وہ فلاحی کاموں کے تحت جیل کے قیدیوں کو سہولت فراہم کر نے اور غریب قیدیوں کے جر مانے اداء کر کے انہیں رہائی دلوائیں گے۔انہوں نے قیدیوں کے لئے پانی کی بورنگ کا فیصلہ بھی کیا ہے جبکہ قیدیوں کے لئے صاف پانی اورسائے کا انتظام بھی کرانے کاذمہ اپنے سر لیا ہے ۔نواز شریف کا یہ بھی کہنا تھا کہ جس قیدی کی بیرک کے باہر شیڈ نہیں وہاں شیڈ بھی تعمیر کئے جائیں گے۔


کوئی ہے جو نواز شریف سے یہ سوال کرے کہ آپ ایک عشرے سے زیادہ پاکستان پر حکمرانی کرتے رہے ، آپ وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان رہے ، آپ کے بھائی جو اپنے آپ کو خادم اعلیٰ کے اعلیٰ لقب سے اپنی شہرت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں وہ کئی بار صوبے کے وزیر اعلیٰ رہے ، آپ کو اس دوران کیوں جیلوں کی بہتری کا خیال نہیں آیا؟ اس وقت کیوں قیدیوں کی ابتر صورت حال پر رونا نہیں آیا؟ کیوں اس وقت ان کے لئے صاف پانی، سائے کے لئے شیڈ اور دوسرے فلاحی کاموں کا یاد نہیں آیا؟ کیا آپ کی آنکھیں اس قت بند تھیں یا پھر آپ حکمرانی کے نشے میں اس قدر مست تھے کہ آپ کو اپنے علاوہ اور کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا تھا۔

اگر آپ خلوص نیت کے ساتھ حقیقی معنوں میں عام عوام کی خدمت کا جذبہ لے کر میدان عمل میں اترتے تو آج آپ کو جیل میں ایسے کاموں کی ضرورت ہی نہ پڑتی ۔آپ کے ساتھ عام قیدیوں کو بھی ٹھنڈا پانی میسرآیا، انہیں بھی سائے کے لئے شیڈ کی سہولت میسر آتی اور آپ اور آپ کے بھائی جیلوں کی ابتر صورتحال کا رونا روتے نظر نہ آتے ۔ آپ اگر عام عوام کو سستی اور اچھی علاج کی سہولیات فراہم کرتے ہوئے کسی اچھے کینسر ہسپتال کی سنگ بنیاد رکھ دیتے تو آج بیگم کلثوم نواز ہزاروں میل دور برطانیہ کے کسی ہسپتال میں زیر علاج نہ ہوتیں بلکہ یہی پاکستان میں جیل سے تھوڑے سے ہی فاصلے پر اُس کینسر ہسپتال میں ہوتی جہاں با آسانی آپ تک ان کی خیریت پہنچ جا یا کرتی۔

لیکن شریف برادران بھی اوروں کی طرح وقت پر کچھ نہ کرنے اور وقت گذر جانے کے بعد صرف پچھتاووں میں اپنی زندگی کو بسر کرنے کے عادی ہو چکے ہیں ۔
قارئین کرام !قدرت ان سب کوتاہیوں اور کمیوں کے باوجود بھی ہم سے ناراض نہیں ہوئی اور ہمیں جنرل الیکشن کی صورت پھر سے ایک اور موقع عطا کر رہی ہے کہ ہم پھر سے اپنی نادانیوں اور وقت پر فیصلے نہ کرنے کی روش کو ترک کر کے ،اپنے ملک ، مستقبل اور آنے والی نسلوں کے لئے وقت پر فیصلہ کرتے ہوئے ایسے لوگوں کو ووٹ دیں جو حقیقی معنوں میں مملکت عظیم کو عظیم تر بنانے میں اپنا کر دار اداء کریں اور عام عوام کی خدمت کو اپنا شعار بناتے ہوئے وقت پر فیصلے کرنے کی صلاحتیوں کو بروئے کار لائیں اور ایک عظیم پاکستان بنا نے میں سب کو ساتھ لے کر چلیں ۔

اگر تو ہم نے وقت پر اپنے مستقبل کا فیصلہ کر لیا تو کچھ بعید نہیں ایک روشن مستقبل ہمارا مقدر ہو اور اگر خدانخواستہ ہم اسی روش پر قائم رہے تو صرف پچھتاووں کے سوا ہمارے ہاتھ اور کچھ نہیں آئے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :