حاجی محمد بشیر ایک شخص کا نہیں بلکہ تحریک کا نام

منگل 20 نومبر 2018

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں،
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم    
حاجی محمد بشیر ایک شخص کا نہیں بلکہ تحریک کا نام تھا جو درد کے مارے لوگوں کے غموں کا مداوا کرتے تھے
دین فطرت کے مطابق بہترین انسان وہ ہے جو لوگوں کے لئے فائدہ مند اور سود مند ثابت ہو ۔ سیانے کہتے ہیں کہ معاشروں کا حسن بھی ایسے ہی لوگوں سے ہے جو لوگوں میںآ سانیاں تقسیم کرنے کے نبوی مشن پر گامزن ہیں اور بغیر کسی نمو د ونمائش کے اپنے رب کی رضا اور اخروی نجات کے لئے سر نیچے کر کے خدمت انسانی کے کام میں مصروف رہتے ہیں۔

جن معاشروں میں ایسے لوگ ناپید ہونا شروع ہو جائیں تو پھر وہاں بے تحا شہ ترقی کے باوجود بھی سکون، محبت اور روا داری اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

ہمارے ملک پاکستان کا شمار بھی قریب ایسے ہی معاشروں میں ہوتا ہے جہاں بغیر کسی ذاتی فائدے کے لوگوں کیلئے فائدہ مند بننے والے لوگ بڑی تیزی کے ساتھ اپنے رب کی جانب کوچ کرتے جا رہے ہیں ۔ عبدالستار ایدھی سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ۔

حالیہ دنوں میں ایسا ہی ایک شخص جو اپنی ذات میں تحریک تھا۔دکھی انسانیت کے غموں کا مداوا ہو یا کسی مستحق طالبعلم کی فیس کا معاملہ ہو، کسی غریب بچی کی شادی کے اخراجات ہوں یا بیواؤں کے گھر میں ماہانہ بنیادوں پر راشن پہنچانے کا سلسلہ ہو، اس جیسے کاموں میں حاجی محمد بشیر انتہائی خاموشی کے ساتھ مخلوق خدا کی داد رسی کاکام کرتے رہے ۔
1945میں سولہ سال کی عمر میں چمڑے کے چھوٹے سے کاروبار سے شروع کئے جانے والا کاروبار بالآخر پاکستان کے ایک بڑے کاروباری ادارے تک جا پہنچا ۔

پاکستان میں پولو کلب کے علاوہ کئی کھیلوں کی سر پرستی بھی کرتے۔ اس دورانئے میں بھی حاجی محمد بشیر نے دین فطرت کے اصولوں کے عین مطابق اپنے کاروبار کو دنیا کی آلائشوں سے محفوظ رکھا۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی ملک میں ذخیرہ انداوں اور سیٹھوں کی طرف سے گندم کا بحران پیدا ہوا، حاجی محمد بشیر نے اپنے گودام عوام کے لئے کھول دئیے ۔

ذخیرہ اندوزی، بلیک میلنگ اور ناجائز منافع خوری سے نفرت اور کوالٹی پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہ کرنا ان کا ٹریڈ مارک تھا اور یہی وجہ تھی کہ جس کی وجہ سے قدرت نے پھر انہیں کامیا بی کی معراج پر پہنچا دیا۔
اپنے کاروبار میں ایک خاص اور بڑی رقم ، مخلو ق خدا میں آسانیاں تقسیم کر نے کی غرض سے رکھی جاتی ۔ دور حاضر کے کئی ایسے بڑے نام ہیں جو ان کی جانب سے دی جانے والی سکالر شپ پر اپنی تعلیم مکمل کر پائے اور آج بڑے بڑے ہسپتالوں ، کالجوں اور اداروں کے مالکان ہیں ۔

ملک پاکستان کے ایک بڑے فنکارنے میرے دل میں اپنی قدر مزید بڑھا دی جب انہوں نے حاجی محمد بشیر صاحب کی وفات والے دن نم آنکھوں کے ساتھ اپنے محسن کے احسانوں کا ذکر کیا اور ایک واقعہ سنایا کہ فلور ملز ایسوسی ایشنز کی ایک تقریب تھی ، حاجی صاحب بھی اس میں شریک تھے۔ اس روز وہ اپنی نئے ماڈل کی ہنڈا کار میں تشریف لائے ۔میں نے ازراہ مذاق ان کے آگے سے گاڑی کی چابی اٹھالی اور کہا کہ حاجی صاحب یہ گاڑی مجھے دے دیں۔

انہوں نے بلا تاخیر فوری طور وہ گاڑی مجھے دے دی جو میرے پاس کئی سالوں تک موجود رہی ۔
حاجی صاحب کے وفات والے دناس فنکار جیسے بیسیوں لوگ ان کی رحم دلی، سخاوت اور اپنے اوپر کئے گئے احسانوں کو یاد کر کے نم آنکھوں کے ساتھ اپنے رب کی بارگاہ میں ان کے لئے دعا گو تھے ۔ مجھے یقین ہے کہ رب جو اپنے بندوں سے ستر ماؤن سے بھی زیادہ محبت رکھتا ہے ، اس نے ان بیسیوں اور اس جیسے سیکڑوں بیواؤں، یتیموں اور غریب لوگوں کی بے لوث خدمت اور ان کی دعاؤں کی بدولت جنت الفردوس کے اعلیٰ مقام میں حاجی محمد بشیر کا ٹھکانہ بنایا ہو گا۔


بلاشبہ حاجی صاحب نے تو لوگوں کے لئے نفع بخش بن کر رب کی رضا اور اخروی نجات کو حاصل کر لیا ہے لیکن وہ ہمارے لئے ایک سوال چھوڑ گئے ہیں کہ اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ کیا ہماری زندگی لوگوں کے لئے نفع بخش ثابت ہو رہی ہے؟ اگر تو اس کا جواب ہاں میں ہے تو یقینی طور پر دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی کامیابی ہمارا مقدر ٹہرے گی اور خدانخواستہ اس کا جواب ناں میں ہے تو پھر نہ ہمیں اس جہاں میں قرار حاصل ہو سکے گا اور نہ اگلے جہاں میں ۔ ہم امیر ہو کر بھی غریب رہیں گے۔ ہم خوشحال ہو کر بھی سکون جیسی دولت سے محروم رہیں گے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :