وزیر اعظم صاحب!کراچی کے تاجروں کو FAPانتظامیہ سے بچائیں

بدھ 13 مارچ 2019

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ جب تک ہم اپنے کاروباری طبقے کو کاروبار کرنے کے لئے آسانیاں فراہم نہ کریں گیاس وقت تک بیرون ممالک سے سر مایہ کاری نہیں آسکے گی ۔ جب تک ہمارا تاجر خوش حال نہ ہو گا،اسے کاروباری معاملات میں کسی قسم کی کوئی پریشانی لاحق نہ ہوگی، تب تک بیرونی سرمایہ کاروں کو آسائشیں دینے کا نعرہ صرف نعرے تک محدود ہی رہے گا۔

میں اسے المیہ کہوں تو غلط نہ ہو گا کہ جناب وزیر اعظم پاکستان اور ان کی پوری ٹیم بار ہا دفعہ پاکستان اور پاکستان سے باہر کے کاروباری طبقے کو مراعات اورآسانیاں دینے کی بات کرتے ہیں لیکن کبھی انہیں اس بات کا احساس نہ ہوا ہے کہ کم از کم اتنا ہی معلوم کرالیا جائے کہ پاکستان کے کاروباری طبقے کو کن مشکلات کا سامنا ہے ، انہیں زیادہ تر شکایات کسی نوعیت کی ہیں اور کن اداروں میں کرپشن کی وجہ سے تاجروں کے جائز کام سالوں تک رکے رہتے ہیں؟۔

(جاری ہے)

یہی وہ وجہ ہے کہ حکومت کو کئی مہینے گذر جانے کے باوجود بھی اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہو پائے ہیں اور پاکستان کی تاجر برادری بھی، جس نے تبدیلی حکومت سے کئی امیدیں وابستہ کی تھیں ، اپنی امیدوں کو ٹوٹتے اور اداروں کی کرپشن کا نشانہ بنتے ہوئے ڈپریشن اور فرسٹریشن کی وادیوں کے مسافر بنی ہو ئی ہے ۔
قارئین !کراچی کا شمار پاکستان کے بڑے تجارتی مراکز میں ہوتا ہے جو روزانہ کی بنیادوں پر خطیر زر مبادلہ کا ذریعہ بن کر پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنا نے میں اپنا اہم کردار اداء کرتا ہے بلکہ سیانے تو کہتے ہیں کہ کراچی پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے ۔

لیکن کتنا بڑا ظلم عظیم ہے کہ تبدیلی حکومت نے اس شہ رگ اور یہاں کے تاجروں کو بے آسرا چھوڑ دیا ہے ۔وہ کراچی جہاں نجیب بالاگام جیسے سیکڑوں تاجر پائے جاتے ہیں جو نسلوں سے پاکستان کی محبت میں گرفتار ہیں اور اس پاکستان کے لئے کئی قربانیاں دیتے آئے اور اس بات کا عزم رکھتے ہیں کہ آئندہ بھی کوئی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ہماری جان، مال و دولت سب پاکستان کے لئے قربان ہے ۔

نجیب بالاگام کو یہ جذبہ وراثت میں ملا ہے ۔1946کی انتخابی مہم کے لئے بانی ء پاکستان جناب حضرت قائداعظم محمد علی جناح کو جب چندہ درکار تھا اور جس کے لئے انہوں نے کہاتھا کہ :مجھے چاندی کی گولیاں دو، میں تمہیں پاکستان دوں گا“۔ایسے ہی ایک روزقائد اعظم گجرات کے قصبے بانٹوا پہنچے جہاں ان کی سوچ سے زیادہ رقم جمع ہوئی اور پھر مجمعے میں کسی شخص نے کہاایک بڑے دل والے بزرگ یہاں نہ آسکے۔

ایک تو کمزوری اور دوسرا آنکھوں کی بینائی نہ ہونے کی وجہ سے مجالس سے پرہیز کرتے ہیں ۔بانی پاکستان اپنی جگہ سے اٹھے اور خود ان بزرگوار کی خدمت میں پیش ہوئے، پورا جلوس پھر جن کے ساتھ تھا۔ قائداعظم  نے انہیں دعا کے ساتھ عطیہ کی درخواست کی تو جس کے جواب میں انہوں نے قائداعظم کو اتنا چندہ دیا کہ وہ مطمئن ہو کر یہاں سے اٹھُے۔یہ بزرگوار محترم، نجیب بالاگام کے نانا تھے جن کے لئے پاکستان کی اہمیت صرف ایک ملک کی نہیں بلکہ ایمان اور عقیدے کی تھی اور آج ان کے نواسے کے بھی وہی جذبات واحساسات، ان کے جسم و جاں کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔


قارئین کرام !سابقہ حکومت نے کراچی کے تاجروں کو آسانی کے نام پر جن مشکلات کا تحفہ دیا تھا تھا اس میں سے ایک FAP(فوجی اکبر پورشیامیرین ٹرمینل) ہے جس کا مقصد تو بظاہرکراچی کے تاجروں اور بالخصوص امپورٹ ، ایکسپورٹ کا کاروبار کر نے والے لوگوں کو آسانی فراہم کر نا تھا۔اس کے تحت ایسے وسیع و عریض اور شاندار ٹرمینل کی تیاری کا آغاز جہاں سے کاروباری طبقات با آسانی طور پر جلد سے جلد اپنے کاروباری معاملات سر انجام دے سکیں ۔

اس کے لئے FAPنے پورٹ قاسم اتھارٹی کے ساتھ تیس سالہ معاہدہ کیا جس کے تحت اسٹیٹ آف دی آرٹ آٹومیٹک ٹرمینلز کی تیاری تھی ۔ اس کے لئے FAPنے جن قواعد و ضوابط کے ساتھ ٹھیکہ لیا جو اب بھی اس کی ویب سائٹ پر موجود ہے اس کے مطابق 15ایکڑ رقبہ 5لاکھ میٹرک ٹن اشیا جس میں چاول، آئل سیڈز اور گندم وغیرہ رکھنے کے لئے بنایا جانا تھا ۔لیکن سب سے پہلے تو اس کے ٹھیکے میں ہی مشکوک معاملات نے جنم لیا ،اس کے بعد جن قواعد وضوابط کے تحت تمام معاملات اور ٹرمینلزکی تیاری ہونی تھی ، وہ بھی پورے نہ ہو سکے اور اب جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ FAPانتظامیہ بھتہ خوری پر اتر آئی ہے ۔

مختلف حیلوں اور بہانوں کے ساتھ لوگوں سے فیسوں کی مد میں لاکھوں روپے وصول کئے جارہے ہیں جو کسی ریکارڈ کا حصہ نہیں بن رہے بلکہ چاول، آئل سیڈز اور گندم امپورٹ و ایکسپورٹ کر نے والے تاجروں کو بلیک میل کیا جارہا ہے اور پوری بدمعاشی کے ساتھFAPانتطامیہ فیسوں کے نام پر بھتہ خوری میں ملوث ہے جس کی وجہ سے تاجر اور بالخصوص گندم ، آئل سیڈز اور چاول ایکسپورٹ وامپورٹ کر نے والے تاجر شدید پریشانی میں ملوث ہیں۔

اگر تو تاجروں کو تنگ کر نے والے ان مافیاز کے خلاف ایکشن نہ لیا گیااور از سر نو اس ٹھیکے اور جن قواعد و ضوابط کے تحت یہ سب کچھ ہوا، اس کے خلاف نیب یا ایف۔آئی۔اے جیسے ادارے سے انکوائری نہ کرائی گئی ، بھاری بھر فیسوں کے نام پر بھتہ خوری میں ملوث ذمہ داران کو بے نقاب نہ کیا گیا اور کراچی کے تاجر کو FAPانتظامیہ کی چنگل سے آزاد نہ کرایا گیا تو کچھ بعید نہیں کہ پاکستان کا تاجر مزید بد دل ہو جائے اور تبدیلی حکومت کا سرمایہ کاروں اور تاجروں کو آسانیاں دینے کا ایک اور نعرہ صرف نعرے تک ہی محدود رہ جائے ۔


جناب وزیر اعظم ! کراچی کے تاجر آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ چئیرمین نیب کی طرف دیکھ رہے ہیں، وفاقی وزیر تجارت اسد عمر کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ کب یہ تمام ذمہ داران کراچی کے تاجروں کو تنگ کر کے ، ملک کی معاشی شہ رگ کا گلہ دبا کر ، ملک کی معیشت کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کر نے والے ان مافیاز کو بے نقاب کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کو نشان عبرت بناتے ہوئے ، پاکستان کو نہ صرف ملک بلکہ اپنا ایمان اور عقیدہ سمجھنے والے تاجروں کے ساتھ کئے ہوئے وعدوں کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :