کیا پولیس کا امیج بہتر ہو سکے گا؟

منگل 8 ستمبر 2020

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

جب سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے ، تب سے سوائے تبادلوں کے اور کسی کام میں دلچسپی نہیں لی گئی ۔ بالخصوص پنجاب میں تبادلے سونامی کی رفتار کے ساتھ ہوتے ہیں اور جب بھی وزیر اعطم پاکستان ،عمران خان لاہور کا دورہ کرتے ہیں تواس کے ساتھ بیوروکریسی سمیت محکمہ پولیس میں بھی تبادلوں کاامکان لازم و ملزوم ہوتا ہے ۔

بلاشبہ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ بیورو کریسی سمیت کسی بھی محکمے میں لوگ کام کرنے کو تیار نہیں ۔ اپنی اسی پرانی روش کو برقرار رکھتے ہوئے دفتروں میں وقت ضائع کر کے اور ارباب اقتدار کو سب اچھا ہے کی رپورٹ دے کر کبھی جم خانہ تو کبھی کسی عیاشی میں مصروف ہو جاتے ہیں اور عام عوام جو پہلے ہی ذلیل و خوار ہو رہی ہو تی ہے اسے مزید ذلیل کر کے خوب انجوائے کرتے ہیں ۔

(جاری ہے)

وزیر اعظم پاکستان ، چونکہ انتخابات میں تبدیلی کے نعرے کے ساتھ آئے تھے ، لاکھ کوششوں کے باوجود بھی تبدیلی کے اس نعرے کو حقیقت میں تبدیل نہ کر سکے اور اس کے پیچھے صرف بیورو کریسی کی کاہلی اور سستی ہے ۔مزیز ظلم یہ ہے کہ انہوں نے سیاستدانوں اور اقتدار کے ایوانوں مین براجمان ذمہ داروں کو بھی ایسے ”گُر“ سیکھا دئیے ہیں کہ سب اپنا مفاد حاصل کرنے کی مگن میں مصروف عمل ہیں ۔

عوام کا کسی کو کوئی خیال نہیں کہ یہ کس حالات سے گذر رہی ہے ۔ جناب وزیر اعظم کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے اورپنجاب بالخصوص لاہور میں ایسے افسران کا چناؤ کرنا چاہئے جو حقیقی معنوں میں عوام دوست اور خدمت گذار ہوں۔
محکمہ پولیس میں ہونے والے حالیہ تبادلوں کے نتیجے میں لاہور پولیس کے سربراہ کے طور پر عمر شیخ کا چناؤ ، میرے خیال میں بہترین فیصلہ ہے ۔

سربراہ لاہور پولیس کا شمار پولیس کے نہایت پروفیشنل، منجھے ہوئے اور تجربہ کار افسروں میں ہوتا ہے۔عمر شیخ نے ضلع نواب شاہ، جیکب آباد، لاڑکانہ، جام شورو سمیت متعدد اضلاع میں بطور ڈی پی او ڈی جی خان میں بطور ریجنل پولیس آفیسر بھی خدمات فرائض سرانجام دیں۔جبکہ آئی بی میں سات سال تک اور چار سال تک پاکستان ایمبیسی واشنگٹن میں خدمات سر انجام دے چْکے ہیں۔

علاوہ ازیں سی سی پی او لاہور، ڈی آئی جی موٹروے پولیس اور نیکٹا میں ڈی جی کاونٹر ٹیررازم کے عْہدے پر بھی فائز رہ چْکے ہیں۔ امریکہ میں جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے اْنہوں نے سائبر لا کے علاوہ Digital Forensic کے کورسز کیے ہیں اور انگلینڈ سے MI-6 کی ٹریننگ بھی حاصل کر چْکے ہیں اور پچھلے ایک سال سے بطور ڈی۔آئی۔جیSPUکی حیثیت سے صوبہ پنجاب میں تمام سی پیک پرو جیکٹس اور چائنیز ورک فورس کی سکیورٹی کے انچارج تھے۔

ان کی پیشہ وارانہ صلاحتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اوربطور سی۔سی۔پی۔او لاہور عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے اپنی انہی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کام بھی شروع کر دیا ہے اور ”عمر شیخ فارمولہ“ سے کرپٹ افسران، اور شہر لاہور کے ملزمان شدید پریشان ہیں ۔ یہ اپنے دبنگ انداز کی وجہ سے بھی کافی معروف ہیں اور بڑی بڑی باتیں کر نے کی بجائے کام کر نے پر یقین رکھتے ہیں ۔

گذشتہ دنوں لاہور میں ڈکیتی واردات کی وجہ سے زخمی ہونے والے باپ بیٹے کی عیادت کے لئے ان کے گھر جا کر عمر شیخ کا کہنا تھا کہ ہم ہر کسی کرائم پر نہیں پہنچ سکتے تو کم از کم ایسے کیسز میں ہمیں ضرور جانا چاہئے۔ چونکہ جب کسی کے ساتھ یہ واقعہ رونما ہوتا ہے تو وہ ٹراما میں چلا جاتا ہے اور نہ صرف وہ بلکہ اس سے جڑے تمام لوگ سائکالوجی ٹراما میں چلے جاتے ہیں،لوگوں کو اس ٹراما سے نکلانے کی بھی ذمہ داری پولیس کی ہے ۔

میں اپنی یہ ذمہ دای پوری کر نے آیا ہوں جو میری سابقہ روایت ہے ۔ اس موقع پر انہوں نے جہاں شیر کے جرائم پیشہ افراد کو سخت پیغام دیا بلکہ ان کی پشت پناہی کر نے والے پولیس ملازمین کو بھی وارننگ دی ۔ بالخصوص محکمہ پولیس کا انوسٹی گیشن ونگ جو کئی سالوں سے تبدیلی اور بہتری کا متقاضی ہے ، معلوم ہوتا ہے سی۔سی۔پی۔او لاہور نے اسے تبدیل کر نے کی ٹھان لی ہے اور ان کے بارے مشہور ہے کہ جس بات کو یہ ٹھان لیں ، وہ کر گذرتے ہیں ۔


قارئین کرام !مجھے قوی یقین ہے کہ وزیر اعظم کے اس فیصلے کے بعد کم از کم لاہور پولیس میں انقلابی تبدیلی کا آغاز ہو جائے گا ۔ اشفاق احمد خان بطور ڈی۔آئی۔جی آپریشنز ، اور شہزادہ سلطان ، ڈی۔آئی۔جی انوسٹی گیشن پہلے ہی بہتری کی کوششوں میں مصروف ہیں اور اپنے پروفیشنل ازم کی وجہ سے کئی مثبت تبدیلیاں لا بھی چکے ہیں ۔امید ہے کہ اب عمر شیخ کے بطور سی۔

سی۔پی۔او لاہور تعینات ہونے کے ساتھ معالات میں مزید بہتری دیکھنے کو ملے گی ۔ تھانہ کلچر حقیقی معنوں میں ٹھیک ہو گا، انوسٹی گیشن کلچر جو کئی سالوں سے تباہ حال ہے ، اس میں جدت آئے گی اور اب ہر افسر اپنے دفتر میں بیٹھے گا اور عوام کی دادرسی کرے گا۔ پولیس کے جونئیر رینک کے ملازم کی بھی ضروریات کا خیال رکھا جائے گا تاکہ وہ اپنی ضروریات کے لئے کسی جرائم پیشہ اور قبضہ گروپ کی پشت پناہی نہ کرے اور معاشرے کے ایسے ناسوروں کے خلاف متحد ہو کر ایکشن لیا جائے ۔ اس سے جہاں محکمہ پولیس کا امیج بہتر ہو گا وہاں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا تبدیلی کا نعرہ بھی پورا ہو جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :