انسانیت سے انا نیت تک کا سفر

منگل 22 دسمبر 2020

Hafiza Ayesha Ahmad

حافظہ عاٸشہ احمد

اللہ رب العزت نے انسان کو اشرف المخلوق بنا کر اس دنیا میں بھیجا۔ انسان نسیان سے نکلا ہے جس کے معنی بھولنے کے ہیں۔ جب انسان اپنی اوقات بھولتا ہے تو وہ انسانیت سے انانیت تک کا سفر آسانی سے طے کر لیتا ہے ۔ انسان کی پیداٸش کا تذکرہ رب العزت قرآن پاک کی سورہ البقرہ میں اس طرح فرماتا ہے کہ میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانا چاہتا ہوں ۔

فرشتے کیو نکہ جنات کو زمین پر فساد برپا کرتے ہوۓ دیکھ چکے تھے اس لۓ کہنے لگے کہ اے پروردگار کیا تو پھر ایک ایسی مخلوق پیدا فرماۓ گا جو زمین پر فساد برپا کرے گی۔ اللہ نے فرمایا جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے تو فرشتے سر تسلیم خم کر لیتے ہیں۔ اللہ پاک فرشتوں کو زمین کی ہر جگہ سے مٹی لانے کا حکم دیتا ہے اور پھر تمام کو ملا کر خمیر تیار کرتا ہے حضرت آدم علیہ السلام کا جسم تخلیق کرتا ہے اور وہ جنت کے دروازے کے پاس رکھ دیتا ہے شیطان آتے جاتے اسے ٹھوکریں مارتا اور حیران ہوتا ہے پھر اللہ پاک اس میں روح پھونکتے ہیں اور وہ ایک مخلوق کی حیثیت سے فرشتوں کے درمیان موجود ہوتے ہیں ۔

(جاری ہے)

اس مخلوق کو انسان، اشرف المخلوقات اور خلیفة اللہ کا لقب ملتا ہے۔ آدم علیہ السلام جنت میں تنہا زندگی کے دن گزارتے ہیں اور شدت سے ایک ساتھی کی کمی محسوس کرتے ہیں ۔ ایک روز سو کر اٹھتے ہیں تو حوا علیہ السلام کو قریشی پاتے ہیں ہنستے کھیلتے وقت گزرتا ہے کہ ایک ایسا عمل سر زد ہو جاتا ہے جس سے اللہ نے منع فرمایا تھا اور آپ کو جنت سے زمین پر بھیج دیا جاتا ہے ۔

انسانیت کے سفر کو ایک نیاموڑ ملتا ہے اولاد کی پیداٸش ہوتی ہے اور دنیا آباد ہونے لگتی ہے لیکن شیطان کا اللہ سے کیا گیا وعدہ اپنی جگہ ۔ وہ اولاد آدم کو بہکاتا ہےاور اسے قتل کا مرتکب بنا دیتا ہے یہاں سے انانیت کے سفر کی ابتدا ہوتی ہے  بھاٸ بھاٸ کو قتل کرتا ہے اور اسکی لاش کو زمین کھود کر دفن کر دیتا ہے ۔دنیا چلتی رہتی ہے اور انسانیت اور انانیت مد مقا بل رہتے ہیں پھر اس عظیم ہستی کی دنیا میں تشریف آوری ہوتی ہے جس ہستی کے لۓ رب کاٸنات نے یہ دنیا تخلیق کی محمد مصطفی ﷺ ۔

مشرکین مکہ نے آپ ﷺ کو طرح طرح کی تکالیف پہنچاٸیں زندگی تنگ  کر نے کی کو شش کی لیکن آپﷺ ہمیشہ ثابت قدم رہے اور ہر چیز کا مقابلہ اللہ پر یقین کے ساتھ کیا کہ وہ بہترین اجر دینے والا ہے۔ ہم بحیثیت مسلمان اس پاک ذات کے شکر گزار ہیں کہ اس نے ہمیں آقاﷺ کا امتی بنا کر اس دنیا میں پیدا فرمایا اور ہمیں خلیفة اللہ کے ساتھ خلیفة الرسول ہونے کا اعزاز بھی عطا کیا۔

لیکن کیا ہم اس کے قابل ہیں؟ اگر دیکھا جاۓ تو ہم انسانیت کے کون سے درجے پر ہیں؟ کیا ہم صرف نام کے مسلمان ہیں یا اپنے عمل سے مسلمان کہلواۓ جا رہے ہیں ؟ ہم اصل میں انانیت کا شکار ہیں ۔ یہ انا ہی ہے کہ ہم آقاﷺ کے امت ہوتے ہوۓ بھی اس بات پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں کہ اگر ہم سنت پر عمل کریں گے تو لوگ ہمیں ایکسٹریمسٹ کہیں گے۔ لوگ سوچیں گے کہ ہم انھیں دکھانے کے لۓ دین پر عمل پیرا ہیں ۔

یہ انانیت ہی ہے کہ ہم لوگوں کی پرواہ کر رہے ہیں جو ہمیں کچھ دینے کے قابل نہیں ۔ ہم منفی سوچ کے قاٸل ہو چکے ہیں ہم تیزی سے انا نیت کا سفر طے کر رہے ہیں حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ اس کی کوٸ منزل نہیں ۔ انانیت کے سفر کو ختم کر کے ہمیں انسانیت کے سفر کی طرف لوٹنا ہو گا تاکہ جو منزل ہماری منتظر ہے ہم اس تک کامیابی سے پہنچ سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :