بنگلہ دیش،حالیہ پھانسی اور ممکنہ محرکات

منگل 14 اپریل 2020

Hammad Asghar Ali

حماد اصغر علی

بنگلہ دیش کے پہلے سربراہ شیخ مجیب الرحمان کے قتل کے مرتکب سابق افسر کو دارالحکومت ڈھاکہ میں پھانسی دے دی گئی۔یاد رہے کہ گذشتہ 25 سال سے مفرور عبدالماجد کو حال ہی میں گرفتار کیا گیا تھا اور رواں ہفتے بنگلہ دیش کے صدر نے ان کی معافی کی اپیل کو مسترد کر دیا تھا۔ سبھی جانتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمان بنگلہ دیش کی برسراقتدار وزیر اعظم شیخ حسینہ کے والد تھے اور انھیں اگست 1975 میں بہت سے رشتے داروں کے ساتھ قتل کر دیا گیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ فوجی بغاوت کے بعد عبدالماجد بنگلہ دیش میں ہی روپوش رہے لیکن جب سنہ 1996 میں شیخ حسینہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں تو وہ انڈیا بھاگ گئے تھے۔ اسی دوران حسینہ واجد کی حکومت نے اس قانون کو کالعدم قرار دیا جس کے تحت ان کے والد کے قاتلوں کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا تھا اور پھر اس کے بعد سنہ 1998 میں عبدالماجد کو موت کی سزا سنائی گئی تھی۔

(جاری ہے)


بنگلہ دیش کی عدالت عظمیٰ نے سنہ 2009 میں ان کی سزائے موت کی توثیق کر دی تھی۔کسے علم نہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو محض الگ سے یا خلا میں دیکھا نہیں جا سکتا بلکہ اس کے پس پشت بہت سے تاریخی عوامل و محرکات تھے اور واقعات و حوادث کی ایک طویل تاریخ ہے ۔ اسی تناظر میں یہ بات اہم ہے کہ بنگلہ دیش کی عوامی لیگی سرکار نے سکول کے نصاب میں تبدیلی کر کے 1952 کے بعد کی لسانی تحریک اور 1971 میں پاکستان کے دولخت ہونے کو ایک خاص انداز میں پیش کرتے ہوئے اسے نام نہاد ”لبریشن وار“ (آزادی کی جنگ) قرار دیا ۔

اس کے علاوہ بنگلہ دیش میں CSS کے امتحان میں بھی 100 نمبروں کا پیپر ” لبریشن وار “(نام نہاد) کی تاریخ پر رکھا جا چکا ہے جس کو حل کرنا لازمی قرار دے رکھا ہے تا کہ اس صورتحال کو بنگلہ دیش اور بھارت کی داخلی سیاست میں بھی استعمال کیا جا سکے۔
بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے انسان دوست حلقوں نے کہا ہے کہ بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت دہلی سرکار کی کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے ۔

اسی وجہ سے اپنے ملکی مفادات کی پرواہ کرنے کی بجائے وہ ایک مدت سے دہلی سرکار کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہر سطح پر جانے کو تیار ہے چاہے اس سے اس کے اپنے ملکی مفادات کو ہی نقصان کیوں نہ پہنچے ۔ ایسے میں بنگلہ دیش کے حقیقی بہی خواہوں نے حسینہ واجد سرکار کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ آنے والے دنوں میں اپنی ان پالیسیسوں کے نتیجے میں خود بنگلہ دیش کی ثقافتی شناخت مزید متاثر ہو گی ۔

 
یہاں اس امر کا ذکر بھی توجہ کا حامل ہے کہ ماضی قریب میں عوامی لیگی حکومت نے اپنے بھارتی آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے بہت سے ایسے رہنماؤں کو سخت سزائیں سنائیں جنہوں نے 1971 میں پاکستانی حکومت اور افواجِ پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔اسی حوالے سے ”عبدالقادر ملا “جنہیں پہلے ہائی کورٹ نے عمر قید کی سزا دی تھی بعد میں بنگلہ دیشی حکومت کے ایما پر سپریم کورٹ نے اس سزا کو پھانسی میں تبدیل کر دیا اور اس بزرگ شخص کو پاکستان کی محبت کے جرم میں 42 سال بعد تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔

پروفیسر غلام اعظم کو 95 سال کی عمر میں عمر قید کی سزا سنا دی گئی ان کے علاوہ بھی بے شمار بزرگوں کو حسینہ واجد کی حکومت عمر قید اور پھانسی دینے کی سعی کر رہی ہے ۔
مبصرین کے مطابق اس میں تو کئی شک نہیں کہ پاکستان کا دو لخت ہونا قومی تاریخ کا ایسا المیہ تھا جسے بجا طور پر سیاہ ترین ہی قرار دیا جا سکتا ہے، مگر یہ نوبت یہاں تک کیوں اور کس طرح پہنچی، اس کے محرکات و عوامل کو بھارت اور بنگلہ دیش کی عوامی لیگی حکومت نے اپنے مخصوص مفادات کے تحت استعمال کیا۔

اور اس کی تاریخی حیثیت مسخ کر کے ”من چاہے“ نتائج اخذ کرنے کی ہر ممکن سعی کی ۔ اگرچہ یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ پاکستان کے دولخت ہونے میں جہاں غیروں کی سازشوں اور مکروہ ہتھکنڈوں کا کردار تھا وہیں اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں کابھی بہرصورت کسی حد تک عمل دخل تھا گویا 
 ہوئی اگر تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا
آپ آتے تھے،مگر کوئی عناں گیر بھی تھا 
تم سے بے جا ہے مجھے ،اپنی تباہی کا گلہ 
اس میں کچھ شائبہِ خوبیِ تقدیر بھی تھا 
 مگر اسے بھی ایک قومی المیہ ہی قرار دیا جانا چاہیے کہ اتنے بڑے سانحے کو بھارت اور عوامی لیگ ایک خاص رنگ دینے میں کسی حد تک کامیاب نظر آتی ہیں، لیکن وطن عزیز کے سبھی حلقوں کی جانب سے اس حوالے سے کوئی موثر اور ٹھوس ”قومی بیانیہ“ تاحال سامنے نہیں آیا جس کا فائدہ بھارت مسلسل اٹھا رہا ہے۔

پس منظرمیں ماہرین نے کہا ہے کہ اس سارے معاملے کے پس پشت دراصل حسینہ سرکار اور بھارتی حکمرانوں ( بھلے ہی کانگرس ہو یا بی جے پی) کا مخصوص ایجنڈا ہے جس کے تحت سابقہ مشرقی پاکستان میں پاک افواج کے نام نہاد مظالم کے فسانے اور نظریہ پاکستان کو ضعف پہنچانا ہے۔تبھی تو عوامی لیگی حکومت اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے اس کو بطور حربہ استعمال کر رہی ہے۔

توقع کی جانی چاہیے کہ اس بابت وطن عزیز کے خصوصاً دانشور حلقے ، حقیقی سول سوسائٹی اور ریاست موثر اور ٹھوس ”قومی بیانیے“ کی اشد ضرورت کو محسوس کرے گی اور اس بیانیے کی ترتیب و تشکیل کی جانب ہنگامی بنیادوں پر پیش رفت کی جائے گی۔ یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ بھارتی حکومت کافی عرصے سے بنگلہ دیش کے معاملات میں انتہائی منفی رویہ اختیار کیے ہوئے ہے جس کی وجہ سے بنگلہ دیش میں میں اندر ہی اندر بھارتی پالیسیوں کے خلاف جذبات بھی پنپ رہے ہیں۔خاص طور پر حالیہ چند ماہ سے دہلی،بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں جس طور بے گناہ کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کو تختہ مشق بنایا جارہا ہے اس نے انسان دوست حلقوں کو کسی حد تک جھنجھوڑا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :