رواداری کا فروغ کیسے ممکن؟

جمعرات 23 اپریل 2020

Hammad Asghar Ali

حماد اصغر علی

جس وقت سے دنیا میں کورونا وائرس کی وبا نے سر ابھارا ہے اس وقت سے عام آدمی سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہے۔اس بابت یہ بات خاصی حوصلہ افزا ہے کہ پاکستان میں عوام کی بھاری اکثریت ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ دنیا میں بڑھتی انتہا پسندی پر کسی بھی طور لگام ڈالی جاسکے اور اس ضمن میں معاشرے کے سبھی طبقات اپنی اپنی سطح پر کوشش کر رہے ہیں کہ ہر قیمت پر فرقہ واریت کو جڑ سے ختم کیا جا سکے ۔

تبھی تو پاک سربراہ مملکت نے ملک کے سبھی حلقوں کی مشاروت سے ایک متفقہ دستاویز جاری کی ہے ،جس کا یہ پہلو انتہائی مثبت ہے کہ ملک بھر کے علماء اور دانشوروں کے ساتھ مشاروت کے بعد یہ پیش رفت عمل میں آئی ہے ۔
واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی زیر صدارت علماء کرام اور مشائخ کے ایک اجلاس میں کرونا وائرس کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں رمضان المبارک کے دوران نماز تراویح اور نماز جمعہ سے متعلق 20 نکاتی متفقہ اعلامیہ جاری کیا گیا ۔

(جاری ہے)

متفقہ اعلامیہ میں کہاگیا ہے کہ مساجد اور امام بارگاہوں میں قالین یا دریاں نہیں بچھائی جائیں گی، صاف فرش پر نماز پڑھی جائے گی۔ اگر کچا فرش ہو تو صاف چٹائی بچھائی جا سکتی ہے۔ جو لوگ گھر سے اپنی جائے نماز لا کر اس پر نماز پڑھنا چاہیں، وہ ایسا ضرور کریں۔
اعلامیہ میں مزید کہاگیاہے کہ نماز سے پیشتر اور بعد میں مجمع لگانے سے گریز کیا جائے۔

جن مساجد اور امام بارگاہوں میں صحن موجود ہوں وہاں ہال کے اندر نہیں بلکہ صحن میں نماز پڑھائی جائے۔اعلامیہ کے مطابق 50سال سے زیادہ عمر کے لوگ، نابالغ بچے اور کھانسی نزلہ زکام وغیرہ کے مریض مساجد اور امام بارگاہوں میں نہ آئیں۔مسجد اور امام بارگاہ کے احاطہ کے اندر نماز اور تراویح کا اہتمام کیا جائے۔ سڑک اورفٹ پاتھ پر نماز پڑھنے سے اجتناب کیا جائے۔

مسجد اور امام بارگاہ کے فرش کو صاف کرنے کے لئے پانی میں کلورین کا محلول بنا کر دھویا جائے۔ مبصرین نے اس جاری کردہ اعلامیے کو قابلِ تحسین اور وقت کی اہم ترین ضرور ت قرار دیا ہے۔ 
سنجیدہ حلقوں نے اس صورتحال کا جائزہ لیتے کہا ہے کہ جب کوئی قوم مسائل کے ایسے بھنور میں پھنس جائے، جن کا سرا ڈھونڈنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جائے اور ہر سعی معاملات کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھاؤ پیدا کرنے لگے تو ایسے میں اس قوم کے اہل فکر سنجیدگی سے سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں کیونکہ دوراندیش قوموں کا شیوہ ہے کہ وہ اپنے مسائل سے نمٹنے کیلئے جب کمر بستہ ہوتی ہیں تو ان عوامل کا جائزہ لیتی ہیں جن کی وجہ سے وہ مسائل کا شکار ہوئیں کیونکہ اصل میں کسی مسئلے کو تب ہی حل کر پانا ممکن ہوتا ہے جب اس کے اسباب کا جائزہ لیا جائے۔

اہل دانش کے مطابق بیتی چند صدیوں میں صنعتی انقلاب کی دستک کو اسلامی ممالک نے نہیں سمجھا مگر مغربی ممالک نے اسے سمجھ کر ترقی کی منازل طے کر کے قوموں کی برادری میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔ لیکن ”دیر آید درست آید“ کے مصداق اب وطنِ عزیز میں بھی اس ضمن میں ٹھوس پیش رفت ہو رہی ہے۔ 
مبصرین کے مطابق دور حاضر میں تعلیم کی ضرورت و اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔

آج چونکہ کمپیوٹر کا دور ہے، جدید سائنسی اور صنعتی تحقیق کی بدولت نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں لہذا ہر قسم کی ٹیکنیکل اور جدید تعلیم حاصل کرنا آج کے دور کا لازمی تقاضا ہے۔ ایسے میں حکومت وقت کا فرض ہوتا ہے کہ اپنے ملک کے نوجوانوں کو ایسی تمام سہولیات مہیا کرے جس سے وہ جدید علوم کی طرف راغب ہو سکیں مگر بد قسمتی سے اس عظیم پیشے کی قدر و قیمت کی جانب خاطر خواہ دھیان نہیں دیا جاتا رہا یا پھر سبھی حکمرانوں نے اپنے وقتی مفادات کی خاطر اس ضمن میں کوئی توجہ نہ دی اور جدید دور کے ساتھ بڑھتی ہوئی تعلیمی ضرورت کو دانستہ نظر انداز کیا۔

اب اس بات پر بھلا کیا تبصرہ کیا جائے کہ ُٓپاکستان کے جڑواں شہر وں میں 33 سال سے کوئی بڑا اور قومی سطح کا پولی ٹیکنیکل کالج تک ہی موجود نہیں جہاں سے نوجوان جدید علوم سے آراستہ ہو کر وطن کی خدمت میں نمایاں کردار ادا کر
یہ امر بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ کسی بھی باوقار معاشرے میں رواداری خشت اول کی حیثیت رکھتی ہے اور ہر طرح کے گروہی تعصبات سے اوپر اٹھ کر ہی یہ مقصدِ عظیم حاصل کیا جا سکتا ہے۔

یہاں اس امر کا تذکرہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ بحیثیت مجموعی پاکستانی سوسائٹی اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود بہت اچھی شکل میں موجود ہے البتہ بہتری کی گنجائش چونکہ ہمیشہ موجود ہوتی ہے لہذا اس ضمن میں مزید کوشش کی جانے چاہیے ۔
بہرحال اس امر سے بھی انکار ممکن نہیں کہ وطن عزیز میں یقینا بہت سے سکم اور جھول موجود ہیں جن کی اصلاح کیے بنا باوقار ڈھنگ سے آگے بڑھنا مشکل ہی نہیں بلکہ نہ ممکن بھی ہے ۔

عدم رواداری اور عدم برداشت ایسے عنصر ہیں جو کسی معاشرے کو دیمک کی مانند چاٹ جاتے ہیں اور اگر ان کو روکنے کے لئے ٹھوس اور بروقت اقدامات نہ کیے جائیں، تو معاشرے دھیرے دھیرے بد ترین انتشار اور شکست و ریخت میں مبتلا ہو کر رہ جاتا ہے۔ لہذا یہ امر بہرحال خاصا اطمینان بخش ہے کہ پاکستانی قوم نے بحیثیت مجموعی اپنی بہتری کی جانب بہت ٹھوس پیش رفت کی ہے اور امید ہے کہ اس معاملے میں آفاقی اصولوں پر چلتے ہوئے معاملات میں بہتری کی کوشش کو جاری رکھا جائے گا۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :