امید سحر، پاک ترک تعلقات

منگل 12 مئی 2020

Hammad Asghar Ali

حماد اصغر علی

اکثر لوگ جانتے ہیں کہ ترکی اور پاکستان کے باہمی تعلقات قابل رشک حد تک بہتر ہیں اور یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں کہ ترکی کے سربراہ طیب اردگان کی شخصیت ایسی ہے کہ جس کی قدر و منزلت دنیا بھر کے مسلمانوں میں بالعموم اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بالخصوص بہت ہی شاندار ہے، امید کی جانی چاہیے کہ عالم اسلام کے دسرے ممالک کے مابین بھی ایسے ہی بردارنہ تعلقات قائم ہوں گے ۔


یہ حقیقت بھی روز روشن کی عیاں ہے کہ پاکستان کے سربراہ حکومت عمران خان پاک ترک تعلقات کو مزید بہتری کی جانب لے جارہے ہیں ۔اسی تناظر میں پاکستان ٹیلی ویژن نے ”ارطغرل غازی“ کے عنوان سے جو ڈرامہ سیریل تیار کی ہے وہ مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے ۔اس کا مختصر تعارف درج ذیل ہے ۔

(جاری ہے)

 

ارطغرل غازی اس وقت پوری دنیا میں موضوع بحث ہے، پچھلے پانچ سالوں سے ترکی، پاکستان، بھارت، عرب ممالک، یورپین ممالک، ویسٹرن دنیا اور امریکہ میں اس تاریخی کردار پر بحث ہورہی ہے کہ یہ کون ہے ؟ ارطغرل غازی واقعی کوئی حقیقی کردار ہے یا پھر ایک فرضی کردار ہے ؟کیا واقعی اسی نے عالم اسلام کو متحد کرنے کا خواب دیکھا تھا اور اپنے بیٹے عثمان غازی کی انہی خطوط پر تربیت کی تھی؟؟ کیا واقعی خانہ بدوش قبیلے کا سردار ہو کر دنیا کی دو اہم طاقتوں منگولوں اور صلیبیوں سے برسرِ پیکار تھا اور دونوں کو شکست دے کر مسلمانوں کی عظمت رفتہ بحال کی تھی۔

 
یہ ڈرامہ سیریل 2019 تک جاری رہا ہے ، ڈرامہ پانچ سیزن پر مشتمل ہے اس میں ڈیڑھ سو اقساط ہیں ، ایک قسط کا دورانیہ تقریبا دو گھنٹے کا ہے اب تک 160 ممالک میں اسے دیکھا جاچکا ہے، 90 سے زیاد ہ زبانوں میں اس کی باضابطہ ڈبنگ ہوچکی ہے، اس ڈرامے کو دیکھ کر کئی لوگ اسلام قبول کر چکے ہیں۔ اس ڈرامے میں یہ دکھایا گیا ہے کہ 3ویں صدی میں کائی قبیلے نام کا ایک ترک قبیلہ تھا تھا جو منگولوں کے ظلم و ستم سے پریشان تھا ۔

بھیڑو بکرایاں چرانا اس قبیلے کا پیشہ تھا، اس قبیلے نے امیر حلب سے زمین حاصل کرکے شام کے علاقے میں وہاں اپنے قبیلے کو آباد کیا ، جہاں صلیبیوں سے مسلسل اس کی لڑائی رہی اور بلاآخر اس قبیلے کے جانبازوں نے حلب کے علاقے میں صلیبیوں کے خفیہ قلعے کو مسمار کر دیا ۔
 حلب کے شاہی محل کو صلیبی سازشوں اور غداروں سے نجات دلائی، اس قبیلے کا سردار شاہ سیلمان تھا جس کی جنگ سے واپسی کے وقت دریا میں ڈوبنے سے موت ہوگئی ۔

اس کے بعد شاہ سلمان کا تیسرا بیٹا اطغرل اس کا سردار بنا اور اس نے کچھ جنگجوؤں اور اپنے قبیلے کے کچھ لوگوں کے ساتھ اناطولیہ کی طرف سفر کیا ۔ یہاں اس نے منگولوں اور صلیبیوں دونوں سے مسلسل لڑائی کی،دونوں کو شکست سے دوچار کرتا رہا اور کئی صلیبی قلعوں کو اس نے فتح کر لیا۔
فتوحات کا آغاز اس نے باتلی بازار سے کیا جو آج بھی ترکی میں موجود ہے،اور یہ دنیا کے قدیم ترین بازاروں میں سے ایک ہے۔

ارطغرل کی جنگی صلاحیتوں اور کامیابیوں سے خوش ہوکر سلجوق سلطنت کے فرمانروا سلطان علاوالدین نے اسے سوغوت کا علاقہ دے دیا اور ارطغرل کو وہاں کا سردار اعلی بنا دیا ۔ارطغرل کی بیوی حلیمہ سے تین بچے پیدا ہوئے، سب سے چھوٹا عثمان تھا جس کے بارے میں خود ارطغرل نے بھی کئی مرتبہ خواب دیکھا کہ وہ عالم اسلام کو متحد کرے گا اور دنیا کی عظیم سلطنت قائم کرے گا ۔

خفیہ تنظیم سفید داڑھی والوں نے بھی اس کی آمد کا تذکرہ کیا ۔ عثمان نے جوان ہونے کے بعد قبیلے کی ذمہ داری سنبھال لی اور اپنے والد کی طرح یہ بھی منگولوں اور صلیبیوں کے خلاف برسر بیکار ہوگیا ۔عثمان کی قابلیت اور اس کی پوری مہم کو باضابطہ ایک ڈرامہ ”کرلو س عثمان“ کی صورت میں پیش کیا جارہا ہے جس کے 19 ایپی سوڈ ریلیز ہو چکے ہیں اس میں خلافت عثمانیہ کا قیام دکھایا جائے گا ۔

ارطغرل کی پوری جنگی مہم میں شیخ ابن العربی نے روحانی پیر کے طور پر بہت مدد کی،اس کے علاوہ ارطغرل کے تین بہادر ساتھی ہامسی بے،ترغوت بے اور روشان بے اس کا بہت ساتھ دیتے ہیں اور تقریبا پورا ڈراما ان تینوں کی بہادری شجاعت اور جانثاری کے گرد گھومتا ہے ۔ ڈرامہ میں بہت سلیقے کے ساتھ منگولوں کا ظلم و ستم، صلیبیوں کی سازش اور اپنوں کی غداری دکھائی گئی ہے ، ڈرامے میں بتایا گیا ہے کہ جس طرح آج کے حالات ہے تیرہویں صدی کے حالات بھی بدتر تھے۔

 چنگیز خان کی فوج مسلمانوں کو تباہ و برباد کر رہی تھی، صلیبی مسلسل مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں لگے ہوئے تھے اور مسلمان بھی کم ہمتی کے شکار ہو چکے تھے وہ صلیبیوں اور منگولوں کی سازشوں کا شکار ہوکر اپنوں کے ساتھ ہی غداری کرتے تھے ،ان مشکل حالات میں ارطغرل نے عالم اسلام کو متحد کرنے اور انہیں ذلت و خواری سے بچانے کا خواب دیکھا، اس کو سچ ثابت کرنے کے لیے اس نے یہ جدوجہد شروع کر دی۔

عیسائیوں، منگولوں اور صلیبیوں میں اپنا خوف قائم کردیا ۔
 اس کی وفات کے دس سال بعد اس کے بیٹے عثمان غازی نے 1299 میں سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھ دی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیل گئی اور دنیا کی سب سے لمبی مدت تک قائم رہنے والی اور سب سے مضبوط سلطنت بن گئی جو1923 تک قائم رہی۔ ڈرامے میں خوبصورتی کے ساتھ اسلامی تہذیب و ثقافت کو پیش کیا گیا ہے جس کو دیکھنے کے بعد دنیا کا ہر مسلمان ارطغرل کو اپنا ہیر سمجھتا ہے ۔

 عرب و عجم ، قبیلے اور علاقائیت کی بنیاد پر پائے جانے والے آپسی تعصب کو یہ ڈرا مہ مٹا دیتا ہے ۔ رائٹر کا احسن کمال یہ ہے کہ اس نے ڈرامے میں ترکوں کی اپنی تہذیب کو بھی جگہ دی ہے لیکن اس سے ذرا برابر بھی دیگر علاقوں اور خطوں کے رہنے والوں کی دلچسپی پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ڈرامے کا کردار اس طرح کا ہے کہ عیسائی بھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ ہمارے خلاف جھوٹ ہے بلکہ وہ بھی اسے پسند کرتے ہیں۔

درج بالا تحریر میں جہاں ایک طرف ترکی کے مسلمانوں کے عروج و زوال کی داستان ہے وہیں برصغیر جنوبی ایشیاء کے مختلف ادوار کی تاریخ بھی ہے اور اس میں یہ خواہش ایک دعا کی صورت میں جھلکتی نظر آتی ہے جس سے لگتا ہے کہ اپنی تمام تر کوتاہیوں کے باوجود پاکستان کا مستبقل انتہائی روشن ہے اور آنے والے دنوں میں وطن عزیز کے دامن میں اندھیرے نہیں بلکہ تابناک اجالے ہیں ،انشااللہ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :