کورونا وائرس ایک حقیقت مگر ہم!

پیر 8 جون 2020

Hassan Bin Sajid

حسان بن ساجد

یوں تو تاریخ انسانی میں بہت سی وباؤں نے عالم انسانیت کو گھیرا اگر میں 1720 سے ہر صدی کا جائزہ لوں تو ہر صدی کے بعد کوئی نا کوئی وائرس ہمیں ضرور نظر آتا ہے 1720 طاعون ، 1820 ہیضہ، 1920 بوبونک طاعون اور اب 2020 کرونا وائرس۔چین کے ووہان سے نئے کرونا وائرس کی بڑھتی ہوئی وباء کے بارے میں کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ 1720 کے طاعون سے شروع ہونے والی پوری تاریخ کا ایک حصہ ہے۔

کیا تاریخ نے واقعی اپنے آپ کو دہرایا ہے؟ بہر حال دسمبر 2019 میں چین کے صوبہ وہان سے شروع ہونی والی وبا کرونا وائرس اس وقت عالمی وبا بن چکی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ چینی قوم نے کس احسن طریق سے کرونا کو فقط 3 ماہ میں شکست دی۔ بہر حال اس وقت یہ وائرس براستہ ایران بارڈر پورے ملک میں پھیل چکا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ کرونا وائرس ملک میں اپنے پنجے گاڑھ رہا ہے۔

(جاری ہے)

حکومت وقت نے لاک ڈاؤن کا نوٹیفکیشن تو جاری کیا تھا مگر ہمیں وہ لاک ڈاؤن, سیمی لاک ڈاؤن ہی نظر آیا۔ کچھ حد تک مارکیٹز کھلی تھیں مگر اکثر بند تھیں۔گویا کرونا وائرس نے ابھی پاکستان میں نئے قدم جماے تھے تو حکومت وقت نے بھی سختی کی اور عوام میں بھی کرونا وائرس کا خوف تھا۔ ہم دیکھتے ہیں اسکول، کالجز، یونیورسٹیز، بینکز دوکانیں و دفاتر بند کیے جاتے ہیں۔

غریبوں کی مدد کی خاطر احساس کفالت پروگرام کا آغاز ہوتا ہے اور غریب فیملیز کو 12 ہزار روپے ادا کیے جاتے ہیں۔ رقم کی ادائیگی میں کتنی خالصیت و شفافیت تھی یہ ایک الگ بحث ہے۔
بہر حال ماہ رمضان المبارک میں عید الفطر کی آمد سے قبل 13 مئی کو ہم دیکھتے ہیں کہ وفاق جزوی لاک ڈاؤن بھی اٹھانے کی ضد میں نظر آتا ہے۔ وفاق، پنجاب اور کے۔پی۔کے ہمیں ایک طرف جبکہ سندھ ایک طرف نظر آتا ہے۔

وفاق کی ڈائریکشن پر دوکانیں، کاروبار، فیکٹریاں و ٹرانسپورٹ کو ایس۔اؤ۔پز کے زیر سایہ کھول دیا جاتا ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ عوام لاک ڈاؤن ختم ہونا، کرونا وائرس کا ختم ہونا سمجھتی ہے۔ بسیں بھری ہوئی اور مارکیٹز میں رش نظر آتا ہے۔ پاکستان میں ایک خاص و اکثر طبقہ آج بھی کرونا وائرس کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کرتا ہے۔ انکے مطابق یہ ایک عالمی مزاح ہے اور حکومت قرضے معاف کروانے کے لیے غلط اعداد و شمار دے رہی ہے۔

البتہ اب اعداد و شمار نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے، پاکستان میں پہلے 45688 افراد کو 45 دنوں، جبکہ آخری 45688 افراد کو 24 گھنٹوں میں کرونا وائرس ہوا۔ اسی طرح پہلی 82 ہلاکتیں 46 دنوں میں ہویں جبکہ آخری 82 ہلاکتیں 24 گھنٹوں میں ہوئیں۔
دوسری نظر سے دیکھیں تو 4اپریل کو 2708 کرونا مریض تھے جبکہ 4 مئ کو 20186 مریض اب صرف ایک ماہ بعد 4 جون کو 85264 افراد کو کرونا وائرس ہوچکا ہے۔

اس وقت پنجاب میں لاہور کرونا وائرس کا مرکز ہے۔ روزانہ لاہور میں 800 سے 900 مریض رجسٹر ہورہے ہیں۔ اسی طرح لاہور کے بعد راولپنڈی و اسلام آباد دوسرے نمبر پر ہے۔ لاک ڈاؤن کو ختم کرنے کے لوازمات ہمارے سامنے ہیں۔ عید الفطر سے قبل 2 سے 3 سو افراد کو مشکل سے کرونا ہوتا تھا جبکہ مشکل سے 4، 5 افراد کی اموات ہوتیں تھیں۔ لاک ڈاؤن کے ختم ہوتے ہی کیسز کی تعداد سینکڑوں اور پھر ہزاروں تک چلی گئی۔

کم و بیش اب روزانہ 4500 سے زائد افراد کرونا کا شکار ہو رہے ہیں جبکہ دوسری جانب جمعہ کے روز محترم وزیراعظم عمران خان صاحب فرماتے ہیں کہ کرونا وائرس نے پھیلتا ہے اسکو پھیلنے سے ہم نہیں روک سکتے۔ ادھر ڈاکٹرز و سائنسدان سخت لاک ڈاؤن  لگانے کی ایڈوائس کر رہے ہیں مگر حکومت نے اس وقت عوام کو ان کے ہی رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ پنجاب حکومت کے سائنٹفک ٹیسٹنگ سروے کے مطابق لاہور کی 5.6 فیصد عوام کرونا کا شکار یے جو کہ 5 سے 6 لاکھ بنتی ہے۔

وزارت صحت پنجاب کے وفاق کو جاری کردہ مرسلہ کے تحت لاہور کا کوئی ٹاؤن یا علاقہ ایسا نہیں جہاں کرونا مریض نا ہو۔ اس وقت کرونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ بڑی بڑی معیشتیں تباہ حال ہیں، بڑی بڑی طاقتیں اپنے گھٹنے اس وائرس کے آگے جھکاے بیٹھی ہیں۔ امریکا اس وقت اموات کے اعتبار سے اول ہے اسی طرح اٹلی کی ہلاکتوں کے ہولناک مناظر بھی ہمارے سامنے ہیں۔

اگر ہماری سنجیدگی کا یہی عالم رہا تو اس وائرس کے پھیلاو کو روکنا انتہائی مشکل ہو جاۓ گا۔ اسی طرح حکومت وقت نے ٹائیگر فورس کا قیام عمل میں لایا۔ نہیں معلوم اس فورس کو کیوں ایک سیاسی رنگ دیا گیا اور تحریک انصاف کے یوتھ ونگ کے نام سے جوڑا گیا۔ اسکا نام قائد اعظم فورس، پاکستان فورس و دیگر بھی رکھا جاسکتا تھا تاکہ ہر سیاسی و مذہبی جماعت سے لوگ اس میں جوش و خروش سے شامل ہوسکتے۔

بہر حال ہمیں کہیں بھی ٹائیگر فورس میدان میں نظر نہیں آئ۔ کیا صرف نوجوانوں کا ڈیٹا اکٹھا کرنا ھی مقصد تھا؟ عوام کو آگاہی یہ فورس کیسے دے سکتی ہے یہ کام تو میڈیا و انٹرنیٹ کا ہے جو عوام تک آسانی و جلد پیغام پہنچا سکتے ہیں۔
مجھے ابھی تک حکومت کی جانب سے ٹھوس حکمت عملی نظر نہیں آتی۔ بس لاک ڈاؤن کھلے اور معیشت چلے۔ حکومت وقت کو سوچنا ہوگا کہ اگر لاک ڈاؤن کھول کر ہزار ہا افراد کی ہلاکتوں اور معیشت کو تباہ کر کہ بھی اگر لاک ڈاؤن کرنا ہے، پھر اموات و کیسز، تباہ حال معیشت بھی دیکھنی ہے تو انتظار کس چیز کا؟ کیا ہم انتظار کر رہے ہیں کہ کرونا وائرس پاکستان میں اپنے پنجے گاڑھ لے پھر ہم اقدامات اٹھایں؟ کیا قوم کے ہر فرد کی جان و علاج کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری نہیں؟ کیا ہمارا صحت و ہسپتالوں کا نظام اتنا مضبوط ہے کہ ہم لاک داؤن کھول کر کرونا وائرس کو پھیلنے دیں؟ آپ نے کرونا وائرس سے لوگ مار کر پھر بعد ازاں لاک ڈاؤن یعنی بھوک سے بھی لوگوں کو مارنے کی حکمت عملی بنائی ہے؟  میری حکومت وقت و ریاست کے اداروں سے درخواست ہے کہ ملک و قوم کو سیاہ گڑھے میں مت گرنے دیں۔

اس قوم سے ملک ہے اور ملک سے قوم ہے۔ یہ وقت انتہائی سنجیدگی کا وقت ہے، لوگوں میں کرونا کا ڈر ویسے ھی لانا ہوگا جیسے اول دن پیدا کیا گیا تھا۔ سختی ویسی ھی کرنی ہوگی جیسی مارچ میں کی گئی تھی۔ یہ ملک مزید تکالیف کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ کرونا وائرس ایک حقیقت ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، اگر کرونا وائرس ایک حقیقت نا ہو تو ساری دنیا پاغلوں جیسا رویہ بھی نا اپناے۔ مجھے امید ہے کہ ریاست کے ادارے اس مرض کی حقیقت کو جان کر ملک و قوم کی خاطر سخت و ٹھوس اقدامات اٹھایں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :