لا اکراہ فی الدین

ہفتہ 17 جولائی 2021

Hassan Sajid

حسن ساجد

یہ ایک عام فہم بات ہے کہ جب ہم کسی ملک کی شہریت اختیار کرتے ہیں تو اس ملک کے باعزت اور با شعورشہری کی حثیت سے تمام قوانین کی پابندی کرنا ہماری ذمہ داری بن جاتا ہے۔ اور اگر ھم ان طے شدہ قوانین سے انحراف کریں گے یعنی قوانین کی خلاف ورزی کریں گے تو ہمارے ساتھہ ملکی قوانین کے عین مطابق سزاوجزا کا معاملہ بھی ہوگا لیکن اگر ہم اس ملک کے شہری نہیں ہیں تو ہم پراس ملک کے کسی بھی قانون کی پابندی لازم نہیں ہے مثال کے طور پر پاکستانی یا برطانوی شہری ہونے کی حثیت سےاگر ہم اس ملک میں رہنا چاہتے ہیں تو ذاتی پسند و نا پسند سے بالاتر ہوکر متعلقہ ملک کے ہر قانون کی پابندی کرنا ہم پر فرض ہے اور اگر نہیں کرتے تو یقیناٰ ہم سزا کے مستحق ہیں لیکن سری لنکا یا سعودی عرب میں بسنے والوں پر ہرگز لازم نہیں کہ وہ اپنے ملک میم رہتے ہوئے ہمارے ملک کے قوانین کی پابندی کریں اور نہ ہی ہم اس معاملے میں ان پر زور زبردستی کر سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

  ہم ان کو مجبور نہیں کرسکتے کہ وہ بھی  ہمارے ملک کی شہریت اختیار کرتے ہوئے ہمارے قوانین کی پیروی کریں اور ہمارے طے شدہ قوانین کے مطابق زندگی بسر کریں۔ لیکن اگر وہ اپنی رضامندی سے اس ملک کی شہریت اختیار کرلیں تو ان پر ذاتی پسند و ناپسند سے بالائے طاق ہو کر یہاں کے قوانین کی پاسداری کرنا لازم ہوگا۔ بلکل اسی "لا اکراہ فی الدین" کو لیکر ہمارے کئی احباب غلط تشریح کرتے ہیں۔

  "لا اکراہ فی الدین" کا مطلب یہی ہے کہ آپ کسی پر جبر نہیں کر سکتے کہ لازمی دین اسلام میں داخل ہو اوراس کے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کریں۔ ہاں اگرکوئی شخص دین کی دعوت دینے پر اس دین کامل میں داخل ہو جاتا ہے تو تمام اسلامی قوانین اور ہماری شریعیت کی پابندی اس پر بلکل اسی طرح لازم ہے جس طرح کسی ملک کی شہریت اختیار کرنے پر اس ملک کے تمام قوانین کی پابندی اس کا فرض بن جاتا ہے۔

ایسا ممکن نہیں ہے کہ اپنی ذاتی پسند و ناپسند کو بنیاد بنا کر ہم کچھ اصولوں پر تو عمل کرلیں مگر جو قوانین ہماری طبیعت پر گراں گزرے اس کے معاملے یہ روش اختیارکر لی جائے کہ "دین میں جبر نہیں ہے" ۔ یہ روش ہم سب میں عموما پائی جاتی ہے کہ ہم اسلام کو محض عقائد و عبادات تک محدود کر تے ہوئے نماز روزہ تو عین اسلامی طرز پر کرتے ہیں مگر دیگر معاملات زندگی میں ہم اسلامی قوانین کو بھول جاتے یا عذر جہل کے فارمولے کے تحت ان معاملات میں اسلامی احکامات سےمتعلق لا علمی  کا اظہار کرتے ہوئےایک سائیڈ پر ہوجاتے ہیں اور ہم سوچتے ہیں کہ اس معاملے میں دین میں نرمی کی گنجائش موجود ہے . جان لیجیئے کہ ایسا ہرگز نہیں ہے کیونکہ آپ میں سے شعبہ ہائے قانون سے وابستہ اکثر حضرات نے قانون کی کتابوں میں میں پڑها ہوگا کہ
" Ignorance of law is not an excuse"
 یعنی کہ قانون سے لاعلمی، قانون سے انحراف کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے. بالکل اسی طرح اسلامی قوانین سے لاعلمی کو دلیل بنا کر ان سے انحراف کرنا بهی اسی زمرے میں آتا ہے .
 اسلام ایک دین کامل ہے جو اپنے پیروکاروں کو عقائد ، عبادات ، معاشیات، معاشرت ، اخلاقیات اور معاملات میں مکمل اور جامع رہنمائی فراہم کرتا ہے. ایک ایسا شخص جو دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا ہے اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی زندگی کے تمام پہلووں کو اسلام کے مطابق ہی سر انجام دے اور اگر وہ کسی بهی معاملے میں اسلام کے طے کردہ قوانین سے انحراف کرے تو اسکی سزا و جزا کا تعین بھی اسلامی طرز قوانین کے مطابق ہو. بحثیت مسلمان ہمارا یہ راسخ عقیدہ ہے کہ اب تا قیامت باقی رہنے والا دین، دین اسلام ہی ہے اور باقی رہنے والی شریعت ، شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے تو پهر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس دین میں زندگی کے ہر پہلو بارے راہنمائی نہ ہو جو شخص ایسا سوچتا ہے کہ ہو سکتا ہے فلاں معاملے میں اسلامی قانون مفصل نہیں یا مکمل راہنمائی موجود نہیں تو یہ اسکی لاعلمی ہے کیونکہ انسانی زندگی سے جڑے ہر معاملے میں اسلام ہر شخص کو مکمل راہنمائی فراہم کرتا ہے. اور جب مکمل اور جامع رہنمائی موجود ہونے کو مانتے ہیں تو  آدها تیتر آدها بٹیر بنتے ہوئے چند معاملات میں اس نیت سے غیر اسلامی طریق اختیار کرنا کہ دین میں جبر نہیں ہے سراسر غلط ہے. کیونکہ دین میں جبر نہیں سے مراد ہے کہ ہم کسی کو جبر سے دین میں داخل نہیں کر سکتے ہیں. لیکن جب داخل ہو جائے تو سارے کے سارے قوانین پر عمل اس کی ذمہ داری اور فرض ہوگا اور انحراف کی صورت میں سزا وجزا کا معاملہ بھی اسلامی قوانین کے عین مطابق ہوگا . اللہ رب العزت ہمیں اسلام کے سنہری اصول عملا اپنانے کی توفیق عطا فرمائے . آمین ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :