
معلوم نہیں کب؟
ہفتہ 13 جولائی 2019

حیات عبداللہ
(جاری ہے)
یہ ہماری شخصیت کا دوغلا پن نہیں تو کیا ہے؟ کہ اگر غلطی کرنے والے ہم خود ہوں تو ہمیں معاف کر دینے کے متعلق قرآن و حدیث کے دلائل واضح طور پر نظر آنے لگتے ہیں اور ہم قرآن و حدیث سے وہ تمام باتیں پوری دیانت کے ساتھ اخذ کر لیتے ہیں، جو معافی سے جُڑی ہوتی ہیں۔
لیکن اگر غلطی دوسروں سے ہو جائے تو پھر ہم پر قرآنی آیات اور احادیث کچھ اثرنہیں کرتیں۔ہم پہ واجب نہیں شاخوں سے کنارہ کرنا
اکثر و بیشتر ہمیں ادراک بھی ہو جاتا ہے کہ ہمارے مابین غلط فہمیوں کے باعث ہی سنجیدگی، رنجیدگی اور کشیدگی ہے، مگر پھر بھی ہم اپنے موقف سے پسپائی اختیار کر کے پہل کرنے کو تیار نہیں ہوتے اور اگر طوعاً ًو کرہاً ہم زبان سے معذرت خواہانہ الفاظ ادا بھی کر لیں تب بھی ہمارے ماتھے پر شکنیں بہ دستور پڑی رہتی ہیں۔ مجھے اکثر اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ ہمیں جس محاذ پر مکمل ایمانی آب و تاب کے ساتھ ڈٹ جانا چاہیے اور کسی طور پر پسپائی اختیار نہیں کرنی چاہیے اس کے متعلق ہمارے دلوں میں اشکالات اور شکوک وشبہاب کے جھکّڑ چلتے ہیں اور جس محاذ پر ہماری پسپائی ہی ہماری عظمت اور فتح کی دلیل ہوتی ہے اس پر ہم پہلوانوں کی طرح ڈولوں پر تیل لگا کر اکھاڑے میں اتر آتے ہیں اور شکست ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اگر آپ نے اللّہ کے لیے خود کو کسی کے سامنے چھوٹا کیا ہے تو آپ مطمئن ہوجائیں کہ نہ صرف اللّہ ربّ العزت آپ کو عظیم بنادے گا، بلکہ سکون اور سرُور کے وہ جذبات آپ کے تن بدن میں گھل جائیں گے، جو آپ کو کبھی محسوس ہی نہیں ہوئے۔ لاریب برتن بھانڈے کھٹک ہی جاتے ہیں لیکن اگر بات صرف روٹھ جانے، منا لینے اور مان جانے تک ہی محدود رہے تو زندگی کا سرُور اور لطف دوبالا ہی رہتا ہے، مستقل طور پر ناراضی اور خفگی کو اپنا کر ہم ظاہر تو یہ کرتے ہیں کہ ہم بڑے حسّاس واقع ہوئے ہیں مگر یاد رکھیے کہ سوچ کا یہ پہلو گمراہ کن ہے۔ حسّاس دل وہ لوگ نہیں ہوا کرتے جو منفی باتوں پر ڈٹ جاتے ہیں۔ یقیناً ایسے شعور کبھی مثبت اور مستقیم سمت پرواز نہیں کرتے، مجھے کہنے دیجیے کہ حقیقت میں حسّاس دل وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے مسلمان بھائی کی توقیر کا بہ درجہ ء اتم خیال رکھتے ہیں۔
شکستہ آئنوں کو جوڑ دینا چاہتے ہیں ہم
غلط فہمیوں کے خار اگر چن چن کر اور ایک ایک کر کے اپنے دل و دماغ سے نہ نکالے جائیں، بات بنتی ہی نہیں۔ پھر دھیرے دھیرے یہ آزار منافرت اور منافقت تک جا پہنچتے ہیں اور ہم اندر ہی اندر اشتعال کی آگ میں بُھنتے رہتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ نبی ﷺ نے کوہِ صفا پر کھڑے ہو کر جب کفار مکّہ کو توحید کی دعوت دی تو بہ طور تمثیل اپنی عبادات کو نہیں بلکہ کردار اور معاملات کو پیش کیا تھا اور وہ صحابی جسے نبی ﷺ نے جنت کی بشارت دی تھی اس کا اصل سبب یہی تو تھا کہ وہ رات کو سونے سے قبل تمام لوگوں کو معاف کر کے سوتا تھا اور ہم ہیں کہ سوتے وقت اپنے مسلمان بھائیوں کے متعلق عناد کے گٹّھڑ لے کر سوتے ہیں۔ میں بھی احتساب کرتا ہوں اور آپ بھی سوچیے کہ کیا ہم اپنے حجرہ ء ذات سے باہر تشریف لا کر کسی سے معافی مانگنے یا معاف کرنے کے لیے تیار ہیں؟ اگر نہیں تو ہماری تمام تر عبادات بڑے خطرے میں ہیں، معلوم نہیں کب وہ اکارت کردی جائیں اور ہمیں خبر ہی نہ ہو؟
معاف کر دیا میں نے خدا معاف کرے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
حیات عبداللہ کے کالمز
-
چراغ جلتے نہیں ہیں، چنار جلتے ہیں
ہفتہ 5 فروری 2022
-
اشعار کی صحت
ہفتہ 1 جنوری 2022
-
اشعار کی صحت
جمعہ 19 نومبر 2021
-
دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت
ہفتہ 14 اگست 2021
-
جب بھی اہلِ حق اُٹھے، دوجہاں اٹھا لائے
منگل 8 جون 2021
-
وہ دیکھو! غزہ جل رہا ہے
ہفتہ 22 مئی 2021
-
القدس کے بیٹے کہاں ہیں؟
منگل 18 مئی 2021
-
کوئی ایک گناہ
بدھ 12 مئی 2021
حیات عبداللہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.