
سنو! میں تم سے مخاطب ہوں
جمعرات 26 ستمبر 2019

حیات عبداللہ
چپ چاپ بکھرنا ہے، تماشا نہیں بننا
(جاری ہے)
وہ ابنِ ہوس ہو کے بھی رسوا نہیں ہوتا
قصور کے گلی کوچوں میں دندناتے مجرموں کو شاید ہم جہالت کا شاخسانہ قرار دے کر خود کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہو جائیں مگر آپ اعلی تعلیم کی مراکز ان یونیورسٹیز کے اس نظامِ تعلیم کو کیا نام دیں گے کہ وہی پروفیسر پڑھائے، وہی پیپر بنائے، وہی نمبر لگائے اور وہی پاس فیل کرنے کا کلّی طور پر مختار بھی ہو۔پھر دیکھ لیجیے کیسے کیسے بھیانک نتائج برآمد ہو رہے ہیں کہ طالبہ کتنی ہی ذہین کیوں نہ ہو، وہ کتنے ہی شان دار پرچے حل کر لے، جب تک یونیورسٹی کا پروفیسر اس سے خوش نہیں ہو گا، وہ پاس ہو ہی نہیں سکتی۔کتنے ہی سکینڈلز سامنے آ چکے، کتنی ہی طالبات چیخ پکار کر چکیں، مگر اس نظام کو تبدیل کرنے کی بجائے صرف پروفیسرز کو ہلکی پھلکی سزا یا خفیف سی سرزنش کر کے بات ختم کر دی جاتی ہے۔
اقلیمِ محبت میں مہرووفا کے دیپ جلانے والے والدین، سنو! مانا کہ تمھاری محبتیں لوبھ اور غرض کی آلایشوں سے پاک و پوتر ہیں مگر تمھاری عدم توجہی بھی ایسے دل سوز سانحات میں اضافے کا سبب ہے۔تم کبھی اپنے بچوں کی الجھنوں اور ان کے اندر خوف پر مشتمل پیچیدگیوں کو سمجھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے۔تم ان چیخوں کی بازگشت بھی سننے کے لیے وقت نکالا کرو جو تمھارے بچوں کے اندر پھوٹ رہی ہوتی ہیں۔
سنو! میں مخاطب ہوں امید و رجا کی جوت جگانے اور جرائم و بدعنوانی کے خاتمے کا نعرہ ء مستانہ لگانے والے عمران خان سے کہ یہ حقیقت ہے کہ مہنگائی کے عفریت نے ہمارا سانس لینا محال کر دیا ہے مگر ہم پیہم اذیتوں بھری مہنگائی برداشت کرتے چلے آ رہے ہیں۔چینی 80 روپے کلو سے تجاوز کر چکی۔ آٹا، دال اور سبزی، سب کچھ ہی خریدنا دوبھر ہو گیا ہے۔ادویات کی قیمتوں میں 100 سے 300 فی صد تک اضافے نے سیکڑوں مریضوں کا علاج محال کر ڈالا ہے۔پٹرول کی قیمتیں بیحد بیلگام ہو چکیں۔ ہم یہ ساری تلخیاں اور سختیاں جھیلتے چلے جا رہے ہیں مگر بچوں اور بچیوں کی عزتوں کی پامالی کا بوجھ ہم سے نہیں اٹھایا جا رہا۔ہماری پلکیں اپنے ہی بچوں کے کٹے پھٹے اور ادھڑے وجود کا غم نہیں سہار پا رہیں۔
جی ہاں! میں وزارتِ عظمی کی سطح مرتفع پر مقیم عمران خان سے مخاطب ہوں کہ واللہ! میں نے مظلوم ماؤں کی آنکھوں سے درد ٹپکتے دیکھے ہیں۔میں بے بوڑھے باپوں کے دل کے پیمانے بے محابا چھلکتے دیکھے ہیں اور اب تو سراسیمگی میں مبتلا مظلوم لوگوں کے دلوں میں یہ گمان بھی جاگزیں ہوتا چلا جا رہا ہے کہ مقتدر لوگوں کی بجائے اپنے دردِ دل کے قصّے در و دیوار سے کر لینا ہی بہتر ہے کہ دیواروں سے باتیں کر کے کچھ تو بوجھ ہلکا ہو سکتا ہے، حکمرانوں کو تو دکھڑے سنا کر اذیتیں پہلے سے بھی زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔
ہم اپنی ذات کے قصّے درودیوار سے کہتے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
حیات عبداللہ کے کالمز
-
چراغ جلتے نہیں ہیں، چنار جلتے ہیں
ہفتہ 5 فروری 2022
-
اشعار کی صحت
ہفتہ 1 جنوری 2022
-
اشعار کی صحت
جمعہ 19 نومبر 2021
-
دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت
ہفتہ 14 اگست 2021
-
جب بھی اہلِ حق اُٹھے، دوجہاں اٹھا لائے
منگل 8 جون 2021
-
وہ دیکھو! غزہ جل رہا ہے
ہفتہ 22 مئی 2021
-
القدس کے بیٹے کہاں ہیں؟
منگل 18 مئی 2021
-
کوئی ایک گناہ
بدھ 12 مئی 2021
حیات عبداللہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.