سنو! میں تم سے مخاطب ہوں

جمعرات 26 ستمبر 2019

Hayat Abdullah

حیات عبداللہ

کوڑھ ہے کوڑھ جو اُن خون آشام جنسی ہوس سے اٹی درندہ صفت آنکھوں میں اتر آیا ہے۔اُن کے دل جنسی ہوس پرستی کے ایسے غلیظ جوہڑ ہی تو بن چکے ہیں جہاں انسانیت پر مشتمل ہر احساس مفقود ہو چکا ہے۔جہاں رحم، محبت اور مودت سے مماثل ہر جذبہ سرے سے موجود ہی نہیں۔خبر نہیں یہ جنسی چھلاوے کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں کہ ننھی سسکیوں اور معصوم ہچکیوں کا بھی ان پر کوئی اثر ہوتا ہی نہیں۔

معلوم نہیں یہ ہوس زادے کس خمیر کے بنے ہیں کہ ننھے جسموں کو نوچ کر ان کے گلاب بدنوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ویرانوں میں پھینکتے وقت ان کے دل میں خوف کا کوئی ارتعاش پیدا تک نہیں ہوتا۔کیا مظلوم بچوں کے والدین ہمیشہ درد کی تحویل میں رہ کر بکھرتے ہی رہیں گے؟ کیا کوئی بھی ان کا پرسانِ حال نہیں ہو گا؟
اس درد کی تحویل میں رہتے ہوئے ہم کو
چپ چاپ بکھرنا ہے، تماشا نہیں بننا
قصور کی تحصیل چونیاں میں گزشتہ تین ماہ کے دوران چار بچوں کے اغوا کی رپورٹ درج کروائی گئی۔

(جاری ہے)

جن میں سے تین بچوں فیضان، علی حسنین اور ارسلان کی لاشیں ٹیلوں کے قریب سے ملیں۔ایک بچے کی لاش قابلِ شناخت جب کہ دو پھولوں کی لاشوں کے اعضا بھی کٹے پھٹے ملے ہیں۔ایسے کتنے ہی رنجور اور ملول والدین درد اٹھائے پھرتے ہیں۔کتنی ہی مائیں آنسوؤں کا بوجھ اپنی پلکوں پر لادے پھرتی ہیں۔ہم وقتی طور پر دردوں کو پچکار دیتے ہیں۔ہم فقط آہوں اور چیخوں کو پُرسا دے دینے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔

ایک مکمل بوسیدہ نظام پر ہاتھ ڈالنے کی بجائے ہم سطحی سی ایک آدھ تحقیقاتی ٹیم قائم کرتے ہیں۔زیادہ سے زیادہ ہم معصوم زینب کے قاتل عمران جیسے سفاک شخص کو بند کوٹھڑی میں پھانسی پر لٹکا کر اپنے ہاتھوں کو جھاڑ جھنکار لیتے ہیں کہ شاید ہم نے اپنے فرضِ منصبی کو ادا کر دیا، مگر وہ جو عمران جیسے قاتلوں کے عقب میں محجوب اور انتہائی مطلوب طاقت ور خونیں ہاتھ ہیں، وہ آخر کس کے محبوب و مرغوب ہیں؟ اُن پر آج تک ہاتھ کیوں نہ ڈالا جا سکا؟ پورے ملک میں ایسے دل سوز اور دل خراش سانحات کی تعداد بڑھتی ہی جاتی ہے۔

جب معصوم زینب جنسی درندگی کی بھینٹ چڑھ کر قتل ہوئی تھی تب ڈارک اور ڈیپ ویب سائٹس کے متعلق ایک کہرام مچ گیا تھا مگر پھر ایسا سکوت طاری ہوا کہ آج تک ایسے کسی ایک مجرم کو بھی نہ پکڑا جا سکا۔
میں بنتِ حیا ہو کے بھی ہو جاتی ہوں معتوب
وہ ابنِ ہوس ہو کے بھی رسوا نہیں ہوتا
مئی کے مہینے میں اسلام آباد سے اغوا کی جانے والی دس سالہ بچی فرشتہ کی گلی سڑی لاش جنگل سے پڑی ملتی ہے۔

اپریل میں اسلام آباد ہی کے نواحی علاقے بھارہ کہو میں ایک شخص کی دو سالہ بچی سے زیادتی کی جاتی ہے۔ملزم گرفتار کر لیا جاتا ہے۔اور اکثروبیشتر بات فقط مجرموں کی گرفتاری تک ہی محدود رہتی ہے۔سزا کا سارا معاملہ دُور کہیں دھندلکوں میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔سالوں بیت جانے کے باوجود کسی مجرم کو سزا مل بھی جائے تب تک وہ دل دوز سانحہ عوام الناس کے ذہنوں سے اتنا محو ہو چکا ہوتا ہے کہ اس سزا کے مثبت اثرات معاشرے پر مرتب ہو ہی نہیں پاتے۔


قصور کے گلی کوچوں میں دندناتے مجرموں کو شاید ہم جہالت کا شاخسانہ قرار دے کر خود کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہو جائیں مگر آپ اعلی تعلیم کی مراکز ان یونیورسٹیز کے اس نظامِ تعلیم کو کیا نام دیں گے کہ وہی پروفیسر پڑھائے، وہی پیپر بنائے، وہی نمبر لگائے اور وہی پاس فیل کرنے کا کلّی طور پر مختار بھی ہو۔پھر دیکھ لیجیے کیسے کیسے بھیانک نتائج برآمد ہو رہے ہیں کہ طالبہ کتنی ہی ذہین کیوں نہ ہو، وہ کتنے ہی شان دار پرچے حل کر لے، جب تک یونیورسٹی کا پروفیسر اس سے خوش نہیں ہو گا، وہ پاس ہو ہی نہیں سکتی۔

کتنے ہی سکینڈلز سامنے آ چکے، کتنی ہی طالبات چیخ پکار کر چکیں، مگر اس نظام کو تبدیل کرنے کی بجائے صرف پروفیسرز کو ہلکی پھلکی سزا یا خفیف سی سرزنش کر کے بات ختم کر دی جاتی ہے۔
اقلیمِ محبت میں مہرووفا کے دیپ جلانے والے والدین، سنو! مانا کہ تمھاری محبتیں لوبھ اور غرض کی آلایشوں سے پاک و پوتر ہیں مگر تمھاری عدم توجہی بھی ایسے دل سوز سانحات میں اضافے کا سبب ہے۔

تم کبھی اپنے بچوں کی الجھنوں اور ان کے اندر خوف پر مشتمل پیچیدگیوں کو سمجھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے۔تم ان چیخوں کی بازگشت بھی سننے کے لیے وقت نکالا کرو جو تمھارے بچوں کے اندر پھوٹ رہی ہوتی ہیں۔
سنو! میں مخاطب ہوں امید و رجا کی جوت جگانے اور جرائم و بدعنوانی کے خاتمے کا نعرہ ء مستانہ لگانے والے عمران خان سے کہ یہ حقیقت ہے کہ مہنگائی کے عفریت نے ہمارا سانس لینا محال کر دیا ہے مگر ہم پیہم اذیتوں بھری مہنگائی برداشت کرتے چلے آ رہے ہیں۔

چینی 80 روپے کلو سے تجاوز کر چکی۔ آٹا، دال اور سبزی، سب کچھ ہی خریدنا دوبھر ہو گیا ہے۔ادویات کی قیمتوں میں 100 سے 300 فی صد تک اضافے نے سیکڑوں مریضوں کا علاج محال کر ڈالا ہے۔پٹرول کی قیمتیں بیحد بیلگام ہو چکیں۔ ہم یہ ساری تلخیاں اور سختیاں جھیلتے چلے جا رہے ہیں مگر بچوں اور بچیوں کی عزتوں کی پامالی کا بوجھ ہم سے نہیں اٹھایا جا رہا۔ہماری پلکیں اپنے ہی بچوں کے کٹے پھٹے اور ادھڑے وجود کا غم نہیں سہار پا رہیں۔


جی ہاں! میں وزارتِ عظمی کی سطح مرتفع پر مقیم عمران خان سے مخاطب ہوں کہ واللہ! میں نے مظلوم ماؤں کی آنکھوں سے درد ٹپکتے دیکھے ہیں۔میں بے بوڑھے باپوں کے دل کے پیمانے بے محابا چھلکتے دیکھے ہیں اور اب تو سراسیمگی میں مبتلا مظلوم لوگوں کے دلوں میں یہ گمان بھی جاگزیں ہوتا چلا جا رہا ہے کہ مقتدر لوگوں کی بجائے اپنے دردِ دل کے قصّے در و دیوار سے کر لینا ہی بہتر ہے کہ دیواروں سے باتیں کر کے کچھ تو بوجھ ہلکا ہو سکتا ہے، حکمرانوں کو تو دکھڑے سنا کر اذیتیں پہلے سے بھی زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔
تمھاری سرد مہری سے الجھنے سے تو بہتر تھا
ہم اپنی ذات کے قصّے درودیوار سے کہتے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :