خدا کا شُکر ہے گرداب سے نکل آیا

پیر 10 فروری 2020

Hayat Abdullah

حیات عبداللہ

یکلخت ہی آنسوؤں کی ایک جھڑی لگ گئی تھی، اشکوں کے سَوتے پھوٹ پڑے تھے۔وارڈ بوائے بولا”سر! آپ کو تو خوش ہونا چاہیے“مگر اُس پگلے کو کیا پتا تھا کہ یہ آنسو اپنے ربّ کی جناب میں اظہارِ تشکّروسپاس ہی کے لیے تو تھے، جو بے ساختہ بہ نکلے تھے۔زندگی میں کبھی کبھی یوں بھی تو ہوتا ہے کہ وفورِ مسرّت سے آنسو اس طرح رواں ہو جاتے ہیں کہ تھمنے کا نام تک نہیں لیتے۔

جی ہاں! بعض اوقات ایمان آفریں نشاط و انبساط کے اظہار کا راستہ فقط آنکھیں ہی آ ٹھہرتی ہیں۔
گذشتہ ماہ سینے میں ہلکا سا درد ہوا تو فوراً فیصلہ کیا کہ سینے کے ہلکے سے درد کو بھی ہلکا نہیں لینا چاہیے سو کارڈیالوجی سنٹر ملتان سے چیک اپ کروایا۔ای سی جی نارمل تھی مگر ڈاکٹر نے ای ٹی ٹی بھی تجویز کر دی۔

(جاری ہے)

چند دنوں بعد ای ٹی ٹی کی گئی، جو پازیٹو نکلی۔

جس سے پریشانی کی لہر جسم و جاں میں دوڑ گئی۔یخ بستہ سردی کی ٹھٹھرتی شاموں میں زرد پتّوں کی مانند دل اچاٹ سا ہو کر رہ گیا۔طرح طرح کے وسوسے اور سوچ و فکر کے آکٹوپس احساسات کو نوچنے لگے۔
اداسی ایک دم وارد ہوئی ہے
وگرنہ میں ابھی اچھا بھلا تھا
ملتان سے برادرم راؤ خالد اور راؤ قیصر کا اللہ بھلا کرے کہ وہ مجھے کارڈیالوجی سنٹر میں لیے پھرتے رہے۔

ڈاکٹرز اور دیگر عملے کے سرد رویّوں سے مزید دل بجھ سا گیا کہ ہر طرف چیخ پکار کے باوجود ڈیوٹی پر موجود عملہ بے دھڑک موبائل فون استعمال کیے جا رہا تھا۔یقیناً چودھری پرویز الہی نے بہت عظیم کام کیا کہ ملتان میں دل کا ہسپتال بنا دیا، مگر انتظام و انصرام اور عملے کے سرد رویّے کو کون ٹھیک کرے گا؟ ڈاکٹرز تو مسیحا ہوتے ہیں، امید بندھاتے ہیں اور اپنے نرم و شفیق لب و لہجے سے مریض میں زندگی کی جوت جگاتے ہیں مگر ایک بے دردی مسیحا نے تو مجھے بائی پاس آپریشن تک کی خبر سنا دی تھی۔

دل کے ڈاکٹر بھی پتھر دل ہوتے ہیں، اس حقیقت کا آج انکشاف ہو رہا تھا۔ہم اپنی پلکوں پر سپنوں کا بوجھ لیے پھرتے ہیں۔ہم جو اپنے دل کو خواہشوں سے لادے دن رات مسلسل ریاضتیں کرتے رہتے ہیں مگر آلام اچانک ہی آ دھمکتے ہیں اور تمام تمناؤں اور حسرتوں کو پٹخ کر رکھ دیتے ہیں۔اس سے بھی زیادہ اذیت ناک مرحلہ وہ ہوتا ہے جب انسان کو اندر سے رنجور اور مغموم ہونے کے باوجود اپنے اوپر طمانیت کا ایک خول چڑھانا پڑتا ہے، حالاں کہ وہ اندر سے چٹخ چکا ہوتا ہے۔


تم نے باہر سے دیکھ رکھا ہے
میں بہت مختلف ہوں اندر سے
مصائب اگرچہ آسودگیوں کو چاٹ کھاتے ہیں مگر بہت کچھ سِکھا بھی جاتے ہیں۔کون اپنا ہے... کون پرایا؟ کون سجّن بیلی ہے اور کون مطلب پرست؟ وقت یہ سب کچھ نتھار کر رکھ دیتا ہے۔ہماری زندگیوں میں ایسے لوگ بھی تو ہوتے ہیں جن پر انسان مکمل وقار اور پیار کے ساتھ حُسنِ سلوک کی انتہاؤں کو چھو لیتا ہے مگر ان کم ظرفوں سے بھلائی اور خیر کی توقع رکھنا حماقت ثابت ہوتی ہے۔


کم ظرف ومنافق تھے سو افسوس نہیں ہے
جو لوگ مرے حلقہ ء احباب سے نکلے
کرب واضطراب کا سلسلہ 20 دنوں پر محیط تھا۔برادرم زید حبیب کی محبتیں تھیں کہ قلم وقرطاس سے رابطہ ٹوٹنے نہیں پایا اور میں ذہنی خلفشار اور انتشار کے باوجود لفظوں کو صفحہ ء قرطاس پر بکھیرتا چلا گیا۔اللہ ربّ العزت کا وعدہ ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ضرور آتی ہے۔

میرے بچپن کے دوست ماسٹر راؤ ارشاد علی، جو خود دل کے مریض ہیں مگر وہ نہ صرف اپنے لبوں پر تبسّم سجائے پھرتے ہیں بلکہ مسکراہٹیں تقسیم بھی کرتے ہیں۔انھوں نے مجھے ملتان کی بجائے وکٹوریا ہسپتال بہاول پور میں ڈاکٹر سیّد نعمان علی کے پاس جانے کا مشورہ دیا۔پہلی ملاقات میں ہی لگا کہ وہ ایک انتہائی خدا ترس، شفیق، ملنسار اورانسانیت کا درد رکھنے والے ڈاکٹر ہیں۔

انھوں نے میرا اچھی طرح معائنہ کیا اور کہا کہ بہ ظاہر دل کی بیماری کی کوئی علامت نہیں ہے مگر چوں کہ آپ کی ای ٹی ٹی رپورٹ پازیٹو ہے اس لیے بہتر ہے کہ آپ انجیو گرافی کروا لیں تا کہ اصل حقیقت کا کھوج لگایا جا سکے۔نو دن بعد انھوں نے انجیو گرافی کا وقت دیا۔دل و دماغ نو دنوں تک غم اور پریشانی کے حصار میں جکڑے رہے۔چہار سُو ستارے سے ٹوٹنے لگے تھے۔

بادِ سموم کے جھکّڑ جسم وجاں کو جھلسائے جا رہے تھے۔میں ممنون ہوں برادرم راؤ لیاقت علی اور ماسٹر ارشاد علی کا جو مجھے انجیو گرافی کے لیے لے گئے۔
میں وکٹوریا ہسپتال کے کارڈیالوجی سنٹر میں انجیو گرافی روم میں لیٹا تھا۔ڈاکٹر سیّد نعمان علی نے اپنا کام شروع کیا... اللہ کی جناب میں دعائیں، التجائیں، فریادیں اور گزارشیں تھیں۔آج مجھے اس حقیقت کا خوب ادراک ہو رہا تھا کہ دعاؤں اور استغفار میں جتنا سوزوگداز ہسپتالوں کے آپریشن تھیئٹرز اور لیبارٹریز میں آتا ہے اتنا تو مساجد میں بھی نہیں آتا۔

واللہ! مساجد میں بھی اتنی تڑپ کے ساتھ اللہ کو یاد نہیں کیا جاتا جتنا ہسپتالوں میں اللہ یاد آتا ہے۔دعائیں میرے لبوں پر آ بسی تھیں۔اُن دس پندرہ منٹوں کا انگلیٹ اور تن وتوش بہت ہی بھاری اور تلخ تھا۔ڈاکٹر سیّد نعمان علی نے اپنا مسکراتا ہوا چہرہ میرے قریب کیا اور کہا”آپ کے گھر کے قریب کوئی مٹھائی کی دکان ہے؟“میں نے کہا جی! بہت ہیں۔کہنے لگا”آپ کا دل بالکل ٹھیک ہے الحمدللہ، آپ مٹھائی کا ڈبّا لے کر گھر جائیں“
آنسو بہتے چلے گئے۔

اپنے اللہ کے سامنے شُکر ادا کرنے کا آنسوؤں سے بہتر اور کوئی ذریعہ بھی تو نہیں ہوتا۔میں وارڈ بوائے کو کیسے سمجھاتا کہ اپنے ربّ کے حضور اشکوں سے بہتر خوشی کے اظہار کا اور کوئی اسلوب ہے ہی نہیں۔
خدا کا شُکر ہے گرداب سے نکل آیا
میں اس کے حلقہ ء احباب سے نکل آیا
سجی ہوئی تھیں دکانیں منافقت کی جہاں
میں ایسے قریہ ء بے خواب سے نکل آیا
ہم طویل مسافتیں طے کرتے زیست کی راہوں پر سَرپٹ دوڑتے چلے جاتے ہیں اور ایک لمحے کے لیے توقف کر کے ان حقیقتوں کے متعلق نہیں سوچتے جو بہ روزِ حشر ہماری نجات کا باعث ہوں گی۔

ہم نے اپنے گرد مطلب پرستی کے حصار کھینچ رکھے ہیں... ہم حرص وہوس کی بُکّل مارے تاک میں بیٹھے رہتے ہیں... ہم کدورتوں کو توانا رکھنے کے عادی ہیں... ہم رنجشوں کو پال پوس کر پہلوان بنائے رکھنے کے خوگر ہیں... ہمارے گمان کدے میں انسانیت کے جگنو بہت کم ہی جگمگاتے ہیں اور ایسے میں زندگی تمام ہو جاتی ہے۔درحقیقت اللہ ایسی ابتلاؤں اور آزمایشوں کے ذریعے ہمارے کرداروعمل کو صراطِ مستقیم پر گامزن کرنا چاہتے ہیں... شاید کہ ہم سمجھیں... کاش! کہ ہم جانیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :