بے غیرت کون ہم یا، وہ

جمعرات 12 مارچ 2015

Hussain Jan

حُسین جان

ہمارے ایک اُستاد محترم کہا کرتے تھے بیٹا صحافت میں کبھی بھی سخت الفاظ کا استعمال نہیں کرنا چاہیے، تو اُستاد محترم سے معذرت کے ساتھ کچھ سخت قسم کے الفاظ استعمال بھی ہوں گے بالکل عنوان کی طرح کیونکہ صحافت تو ہم کرتے نہیں اب کون بڑے بڑئے گروپس میں 10سے 12 ہزار کی نوکری کرئے۔ لہذا یہ تو ایک عام پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔ ایک عرصے سے لکھنا پڑھنا کم کر رکھا ہے کہ اُس سے پیٹ نہیں بھرتا لیکن اللہ پوچھے ان اخبارات والوں کو ایسی ایسی خبریں دیتے ہیں کہ انسان کا خون خشک ہو جاتا ہے۔


ملک میں خیر سے سینٹ الیکشن ہو چکے ہیں اور ہمارے وزیر آعظم صاحب ہمیشہ کی طرح غیر ملکی دورئے پر نکل گئے تھے اور جیسے ہی الیکشن انجام کو پہنچے تو میاں صاحب بھی پاکستان کے دورئے پرآگئے کہ اب سینٹ کے چیرمین اور ڈپٹی چیرمیں کا بازار لگنا ہے۔

(جاری ہے)

ہر طرف ہارس ٹریڈنگ کی باتیں ہو رہی ہیں پاکستان میں کیونکہ زیادہ تعداد ماشاء اللہ ہمارے جیسے انگوٹھا چھاپوں کی ہے اس لیے بہت سے لوگوں کو تو اس کا مطلب بھی نہیں پتا،کچھ لوگوں کا خیال ہے شائد ہم نے کچھ بے حس لوگوں کو اس لیے ووٹ دیے تھے کہ وہ گھوڑا گھوڑا کھیلں۔

ہارس ٹریڈنگ کے لیے آئین میں ترمیم کی بھی فضول کوشش کی گئی جبکہ سب کو پتا ہے جو حکمت اپنے مفاد کے لیے 2سال سے بلدیاتی الیکشن نہیں کروا پائی وہ ترمیم کیا کرتی اور جبکہ اس ترمیم میں حکومت کو کچھ فائدہ بھی نہیں تھا لہذا میاں صاب سدھار گئے اپنے دوسرئے گھر سعودی عریبہ اور عوام کو چھوڑ گے گھوڑے گدوں کے آسروں پر۔
اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ قصور کس کا ہے ، تو بھائی صاف سی بات ہے کہ قصور ہمارا اپنا ہی ہے یعنی عوام کا، اگر ہم نے ایماندار ،محنتی ،انصاف پسند اور مخلص لوگوں کو ووٹ دیے ہوتے تو آج ہمیں یہ دن نا دیکھنا پڑتا ۔

ہم نے خود ہی کرپٹ اور نا اہل لوگوں کو ووٹ دے کر اسمبلیوں میں پہنچایا ہے تو اُس کی قیمت تو ادا کرنا پڑئے گی۔ جو لوگ کروڑوں روپے خرچ کرکے سینٹ کے ممبران بنیں گے اُن سے عوام بھلائی کی کیا توقع کر سکتی ہے۔ اسی طرح یہ جو ممبران قومی اسمبلی بنے بیٹھے ہیں یہ بھی کروڑوں روپہ لگا کر آئیں ہیں تو وہ تو وصول کرنا ہی ہے انہوں نے۔ جب ہم ہی کرپٹ لوگوں کی حمایت کریں گے اپنے ووٹ بیچیں گے تو خیر توقع کیا رکھیں۔


قائد نے بھی کہا تھا کہ میری جیب میں کچھ کھوٹے سکے ہیں جو ہمیشہ میرئے ملک کے عوام کا خون چوستے رہیں گے، پہلے تو پڑھا کرتے تھے کہ جاگیر دار اور وڈیرے لوگوں کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں اُن سے اپنی مرضی کا ہر کام لیتے ہیں لیکن اب یہ تمیز بھی ختم ہو گئی ہے۔ اب تو ہر وہ بندہ جس کے پاس چار پیسے ہیں عوام کی گردن پر پیر رکھنے کو تیار بیٹھا ہے۔

اگر ہم میں گدھے جتنی بھی عقل ہو تو ایک منٹ میں سب سمجھ آجائے کہ جو دن رات میڈیا میں عوام کے خادم ہونے کے دعوئے دار ہیں کس طرح اپنے اپنے مفاد کے لیے لوگوں کو خرید رہیں ہیں۔
ایک افسوس ناک خبر یہ بھی ہے کہ پاکستان انڈیا کے بعد دوسرا ملک ہے جس کے کروڑوں لوگوں کو باتھ روم ہی میسر نہیں وہ آج بھی رفع حاجت کے لیے گھر سے باہر کا رُخ کرتے ہیں جس سے بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں۔

بڑی بڑی سڑکیں بنانے والوں کی نظروں سے کیا یہ خبریں نہیں گزرتیں۔ سرکاری ہسپتالوں کی مشنریاں آئے روز خراب رہتی ہیں کیا اُن کو یہ نظر نہیں آتا۔ یہ جو سگنل فری سڑک بنانے کا جنون سوار تھا اور جس پر عدالت نے سٹے بڑھا دیا ہالنکہ اس منصوبے پر کروڑوں تو خرچ ہو چکا ہے ،کام بند پڑا ہے لوگ خوار ہو رہے ہیں اس کا حساب کون دے گا یقینا کوئی نہیں کیونکہ ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔

انہیں کسی کا ڈر نہیں کیونکہ پاکستان میں احتساب نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں قانون بھی صرف غریب کے لیے ہے امیروں کے لیے کوئی قانون نہیں وہ جب چاہیں قائد کی تصویر والے کاغذوں کا استعمال کر اپنی جان بچا لیتے ہیں۔
ایک وقت تھا جن کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں ہوتی تھیں مگر ہم نے دیکھا اپنے مفاد کی کاطر انہی سیاسی شعبدہ بازوں کی گاڑیاں خود ڈرائیو کی گیں اُن کے لیے من و سلویٰ تیار کیے گئے اور ایک دفعہ پھر جب چیرمین کی سیٹ چاہیے تو انہی سے ہاتھ ملایا، کیا ہمارے لیڈر بھول گئے ہیں کہ سابقہ حکومت نے کس طرح ملک میں کرپشن کا بازار گرم کیے رکھا،عوام کے ٹیکسوں میں سے عربوں روپے غبن کیے گئے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اُن سے عوام کے پیسوں کا حساب لیا جاتا مگر اُلٹا اُن کی آؤ بھگت کی جارہی ہے، عوام کا کیا ہے وہ جائے بھاڑ میں ۔

مقصد صرف اور صرف اپنا اقتدار بچانا ہے اُس کے لیے چاہیے کچھ بھی کرنا پڑئے ۔ مہنگائی ،غربت نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے مگر کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔
میں تو کہتا ہوں اچھا ہی ہے اس ملک کے عوام ہیں بھی اسی قابل کہ ان کو جوتے ماریں جائیں جن کو اپنے حقوق کا احساس نہیں منہ اُٹھا کے کسی بھی کن ٹٹے کو ووٹ دے دیتے ہیں ۔ جب وقت ہوتا ہے ان کے احتساب کا تب ہم ایک بریانی کی پلیٹ کی خاطر اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل داؤ پر لگا دیتے ہیں کتنے ایم این اے یا ایم پی اے ہیں جو اپنے اپنے حلقے میں وزٹ کرتے ہیں ،دو چار لیڈر جن کو میڈیا جانتا ہے بس ٹی وی پر آکر اپنے اپنے باس کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں کہ ہم یہ کر رہے ہیں وہ کر رہے ہیں ، مگر سب جانتے ہیں کیا کچھ بھی نہیں گیا۔

اور نا ہی مستقبل قریب میں کچھ ہوتا دیکھائی دے رہا ہے۔
ہمیں ایک بیماری یہ بھی ہے کہ مثالیں ہمیشہ ترقی یافتہ ممالک کی دیتے ہیں کہ وہاں پر فلاں فلاں کام عوامی فلاح کے لیے ہو رہے ہیں مگر ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ وہ لوگ ترقی یافتہ کیسے بنے وہاں عام آدمی سے لے کر سیاستدانوں تک نے ترقی کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کیا ، یہاں تو سب کو اپنے اپنے مفاد کی پڑی ہے تو عوا م کے لیے کچھ کرنے کسے ہوش ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :