کتابیں اپنے شہر میں

بدھ 30 جنوری 2019

Hussain Jan

حُسین جان

ایک دفعہ پھر پاکستان کے شہر لاہور میں کتاب میلے کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ یوں تو ہمارے ملک میں کتاب پڑھنے والوں کی تعداد یوں کم ہورہی ہے جیسے حکومتی اتحادی کم ہو رہے ہیں۔ کتاب کے بارے میں کسی نے کیا خوب فرمایا ہے کہ یہ تنہائی کی بہترین ساتھی ہے۔ جس قوم کا کتاب کے ساتھ رشتہ مظبوط ہے وہ قوم دُنیا میں ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔

کتاب کی اہمیت سے کون واقعف نہیں۔ آجکل دیجٹیل کتب بینی کا رواج ترقی پا رہا ہے۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ورق کی خوشبو کی شان ہی نرالی ہے۔ اگر انسان کتابوں کے درمیان بیٹھا ہو تو یوں لگتا ہے جیسے پوری دُنیا اُس کے گرد موجود ہے۔ جو جس جگہ کی چاہے سیر کرسکتا ہے۔
علم حاصل کرنے کا بہترین زریعہ کتاب ہی ہے۔

(جاری ہے)

یہ کتاب ہی کی بدولت آج ہم ت تاریخ سے واقعف ہیں۔

دُنیا کی مختلف تہذیبوں کو کتابوں کی وجہ سے ہی مقبولیت ملی ہے۔ اور تو اور دُنیاکے تمام مذاہب بھی کتابوں کے زریعے ہی نسلوں تک پہنچے ہیں۔ کتاب زندگی کی وہ ساتھی ہے جو کبھی بیوفائی نہیں کرتی۔ خود کو پڑھنے والوں کے لیے یہ ماں کی گود کی طرح ہے۔ جس طرح ماں کی آغوش انسان کو دُنیا جہاں کی فکروں سے آزاد کر دیتی ہے ویسے ہی کتاب بھی تمام پریشانیوں کو پس پست ڈال دینے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔


کسی زمانے میں پاکستان کے تمام شہروں کے ہر گلی محلے میں چھوٹی چھوٹی لائبریریاں ہوا کرتی تھیں ۔ جہاں سے بچے بڑے اپنے اپنے پسند کی کتابوں معمولی کرایہ ادا کر کے حاصل کرسکتے تھے۔ فکشن، ادب، تاریخ ، جغرافیہ، مذاہب ، سائنس ، موسیقی سمیت تمام کتب باآسانی دستیاب تھیں۔ بدقسمتی سے اب وہ دور نہیں رہا۔ چھوٹی چھوٹی لائبریریاں تو درکنار اب تو حکومتی کتب خانے بھی بند پڑئے ہیں۔

اور ویسے بھی اب لوگوں کے ہاتھوں میں کتابوں سے زیادہ موبائل آگئے ہیں۔ بچوں میں کتب بینی کا شوق مخدوش ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں اس طرح کے میلے کتب بینی میں خاطر خواہ اصافے کا موجب بنتے ہیں۔
دوسری طرف ایک افسوس ناک بات یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں کتابیں بہت مہنگی ہوگئی ہیں۔ اچھے اچھے مصنفین کی نئی کتابیں خریدان جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

اگر پبلشرز حضرات سے گلا کیا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ ہمیں رائلٹی بہت زیادہ دینی پڑتی ہے۔ جس کی وجہ سے ہمیں مجبوراً کتابوں کی قیمتوں میں اصافہ کرنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کاغذ کی قیمتیں بھی آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں۔ اگر حکومت اس معاملے میں کچھ رعایت دیکھائے تو آج بھی پبلشرز سستی کتابیں مہیا کرسکتے ہیں۔
کتاب پڑھنا اور پھر اس پر عمل کرنا ہی علم کی میراث۔

کتب بینی کے مندرجہ زیل فوائد ہیں۔ دماغی سکون، سٹریس میں کمی، علم کی بڑھوتڑی، الفاظ کے ذخیرہ میں اضافہ، یاداشت میں اصافہ، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں اضافہ ، مستقل مزاجی، فوکس اور اچھا لکھنے میں مددملنا ۔ اب جس چیز کے اتنے فوائد ہوں اس کو حکومتی سطح پر نظر انداز کرنا بہت بڑی نااہلی ہے۔ معاشرئے میں بڑھتے جرائم اور جہالت و غربت میں واضح کمی کے لیے بھی کتب بینی بہت ضروری ہے
کراچی، اسلام آباد اور پھر لاہور میں کتاب میلوں کا انعقاد خوش آئند ہے۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ دوسرئے شہروں میں بھی ایسے ہی میلے کا انعقاد کیاجانا چاہیے۔ اور اس کے لیے حکومت کی سرپرستی بہت ضروری ہے۔ کتاب میں ہی ممالک کی ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔ کھون لگانے میں یہ مددگار ثابت ہوتی ہے۔ کتابوں نے نسلوں پر بہت احسانات کیے ہیں۔ ہم جس ٹیکنالونی کے دور میں جی رہے ہیں۔ اس دور تک پہنچانے میں کتابوں کا کردار بہت اہم ہے۔

اس سے انکار ممکن نہیں۔
لہذا شہر کے لوگوں کو چاہیے کہ اس کتاب میلے میں اپنی پوری فیملی کے ساتھ شرکت کریں۔ بچوں کو ساتھ لے جائیں تاکہ اُن میں کتب بینی کا شوق پیدا ہوسکے۔ ایک دوست کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ لاہوریوں کو اس معاملے کچھ زیادہ ہی کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسے کے اپنے ایسی عزیز و اقار ب جو دوسرے شہروں میں رہتے ہیں۔ اُن کو دعوت دیں کہ وہ آپ کے شہر لاہور میں آکر اس کتاب میلے میں شریک ہوں۔

اور آپ لوگ اُن کی میزبانی بھی کریں۔ ہر شخص کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا پڑئے گا۔ اسی سے کتب بینی کو زندہ رکھا جاسکتاہے۔ مندرجہ زیل میں کتابوں کے بارئے میں کچھ بہترین کوٹ دیے جارہے ہیں ان سے کتابوں کی اہمیت کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔
﴾ ایک کمرہ کتابوں کے بغیر ایسے ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم
﴾اچھا دوست، اچھی کتابیں اور اچھی نیند بہترین زندگی کی عکاسی کرتے ہیں۔
﴾میں ہمشہ سوچتا ہوں کہ جنت لائبریری جیسی ہوگی
﴾کسی ایسے انسان پر بھروسہ مت کریں جو اپنے ساتھ کتاب نہیں رکھتا۔
﴾کتابوں سے بڑھ کر کوئی وفادار نہیں
﴾کتابیں ایک ایسا جادو ہے جسے سیکھنے والا دُنیا میں آعلیٰ رتبہ پاتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :