ہماری گائے تمہاری ماں

جمعرات 12 ستمبر 2019

Hussain Jan

حُسین جان

پاکستان میں بہت سے لوگ دو قومی نظریہ کو مذاق سمجھتے ہیں. یہ لوگ اس نظریے کی ٹھیک سے تشریع نہیں کرپاتے . آسام کے سینکڑوں مسلمانوں کی شہریت کینسل کی جارہی ہے. پاکستان میں اسلام اور نظریے کے نام پر ہمیشہ قوم کو بیوقوف بنایا گیا ہے. مولانا فضل الرحمان صاحب کو ہی دیکھ لیں بجائے اس کے کہ وہ لوگوں کو کشمیر کے لیے باہر نکالتے وہ مدرسوں کے بچوں کو ملک بند کرنے کے لیے ورغلا رہے ہیں. اور اس عمل میں ان کو ملک کی بڑی جماعت ن لیگ اور اندرون سندھ کی جماعت پی پی پی کی بھی حمایت حاصل ہے. اپنی ایک سابقہ تقریر میں میاں نواز شریف صاحب خود دو قومی نظریے کی نفی کرچکے ہیں. آپ کسی بھی مصنف کی پرانی کتاب پڑھ لیں آپ کو یہی پڑھنے کو ملے گا کہ پاکستان اور ہندوستان کے بننے سے پہلے تمام پبلک مقامات پر ہندو پانی اور مسلم پانی الگ الگ رکھا جاتا تھا. اور یہ پانی مسلمان نہیں بلکہ ہندو رکھا کرتے تھے. اسی طرح مذہبی عبادات بھی یکسر مختلف ہیں. دو قومی نظریہ اس لیے پیش کیا گیا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو اسلام کے مطابق عبادت کرنے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا. اس کی کئی مثالوں میں سے ایک آج بھی موجود ہے. یعنی ہندو کسی بھی مسلمان کو گائے کے نام پر قتل کردیتے ہیں۔

(جاری ہے)

مسلمانوں کے مذہب میں ماس مچھلی جو کہ حلال ہو کھانے کی مکمل آزادی ہے۔ لیکن ہندوں کا ایک بڑا طبقہ ماس مچھلی کے نام سے دور بھاگتا ہے اور اسے گناہ کبیرہ مانا جاتا۔ دو قومی نظریے سے مراد یہ نہیں کہ ہم ایک ایسا ملک لینا چاہتے جس میں مسلمان تو آزادی سے رہے ہیں اقلیتیں بھی سکون سے زندگی گزاریں۔
بات یہ نہیں کہ سارے مسلمان یا دوسرئے مذاہب کیے لوگ الگ رہنا چاہتے ہیں بلکہ ہر طرف سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ایک دوسرئے کے ساتھ مل کر رہنا پسند کرتے ہیں۔

ہر انسان کو زندہ رہنے اور اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا مکمل حق ہے۔ لیکن یہ بات بھی ضروری ہے کہ آپ اپنے حق کے لیے کسی دوسرئے کا حق مت کھائیں ۔ کشمیر کو ہی لے لیں وہا ں بسنے والوں کے لیے زندگی تنگ کرکے رکھی ہوئی ہے۔ ہمارے بہت سے اخبار نویس اس معاملے میں بھی پاکستان کو قصور وار ٹھہراتے ہیں۔ اور یہ لوگ ہر اس معاملے میں جس کا تعلق انڈیا سے ہو اس میں ہمار ے ملک کو ہی برا کہتے ہیں۔

لڑائی ہندوں ، مسلم یا سکھ عیسائی کی نہیں بات اس سوچ کی ہے جو لوگوں پر زبردستی مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
رسم و رواج اور عبادات دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ اگر کچھ رسوم آپ کے مذہب کے مخالف نہیں ہیں ان رسومات کو آپ ادا کرسکتے ہیں۔ کیونکہ رسمیں مقامی ہوتی جبکہ مذہب بین القوامی ۔ ہندوستان میں روزانہ کی بنیاد پر اقلیتوں پر ظلم و ستم ڈھائے جارہے ہیں۔

پاکستان پر ہمیشہ مذہب کے نام پر حاصل ہونے والے ملک کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔ جبکہ دوسری طرف بھارت خود کو سیکولر ملک گردانتا رہا ہے۔ لیکن دیکھنے والی بات یہ وہاں گزشتہ سات دہائیوں سے اقلیتوں خاص کر کے مسلمانوں پر ظلم ہوتا آرہا ہے۔ ہمارے ایک دوست جنہیں ہم گدھے سے بھی زیادہ نالائق سمجھتے ہیں کا کہنا ہے کہ دو قومی نظریہ فضول تھا اور قائد آعظم نے اپنے اقتدار کے لیے دو قومی نظریے کا نعرہ لگایا۔

اگر قائد کو اپنا اقتدار عزیز تھا تو انہوں نے بیماری کے باواجود بھی برصغیر کے لوگوں کے لیے اتنی محنت کیوں کی۔
بھارت میں بسنے والے ہندو انڈیا کو صرف اپنا دیش مانتے ہیں۔ اُن کے نزدیک بھارت میں صرف ہندو رہیں گے۔ اسی لیے وہاں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دوسری اقلیتوں کو بھی مشکل حالات کا سامنا رہتا ہے۔ آپ جب کبھی دو قومی نظریے کی بات کریں تو مذہبی یا کٹر مسلم ہونے کے طعنے دیے جاتے ہیں۔

جبکہ حقیقت کا اس سے دور تک تعلق بھی نہیں۔ آپ خود اندازہ لگائیں جو لوگ ایک گائے کے لیے بے گناہ انسانوں کا خون بہاتے ہیں کیا وہ کسی کے ساتھ رہنے کے مستحق ہیں۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ دُنیا کو اس طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کشمیر میں دیکھ لیں اس علاقے کو صرف اس لیے تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے کہ وہاں مسلم اکثریت ہے۔ اور تو اور محرم کے جلوسوں پر بھی پابندی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کو اپنی روایات کے مطابق زندگی گزارنے کا حق بھی نہیں دیا جاتا۔ اب ایسی صورتحال میں الگ ملک کی ڈیماند کرنا ناجائز تو نا ہوا نا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :