عوام میں مقبولیت کے گُر

جمعرات 10 اکتوبر 2019

Hussain Jan

حُسین جان

اگر ہم تھوڑا سا پیچھے جائیں تو لوگوں کو زندہ رہنے کے لیے کھانہ، پانی، کپڑئے اور گھر کی ضرورت ہوتی تھی۔ موجودہ دور میں ان چیزوں میں کچھ کا اصافہ ہوگیا ہے جیسے کہ تعلیم، صحت ، صفائی ،روزگار اور انٹرنیٹ ۔ یعنی اگر کسی بھی حکومت نے عوای مقبولیت حاصل کرنی ہے تو اسے یہ چیزیں ہر حال میں عوام کی پہنچ میں دینی ہوگیں۔ اس کے بغیر آپ کچھ بھی کرلیں عوام مطمن نہیں ہو گی۔

اب ہوتا کیا ہے ہر ملک کے اپنے اپنے وسائل ہوتے ہیں۔ جس طرح باپ دادا کی جائیداد میں سے تمام اولاد برابر کی حصہ دار ہوتی ہے اسی طرح ریاست کے وسائل پر اس میں بسنے والے تمام لوگوں یا شہریوں کا برابر کا حق ہوتا ہے۔ لوگوں کو آئین، صوبائی خودمختاری، آئینی ترامیم، عالمی مسائل، قائمہ کمیٹیاں، پارلیمنٹ وغیرہ سے کوئی خاص رغبت نہیں ہوتی۔

(جاری ہے)

لوگ ووٹ کے زریعے ملک کے وسائل اپنے منتخب کردہ لوگوں کے سپرد کردیتے ہیں۔

اور اس کے بدلے میں ان سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ ان وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے لوگوں کے مسائل حل کرئے۔ ان وسائل کے ساتھ ساتھ لوگ اپنی کمائی کا ایک مخوص حصہ ٹیکس کی مد میں ریاست کو دیتے ہیں۔ اب یہ زمہ داری ریاست کی بنتی ہے کہ وہ ان وسائل کی منصفانہ تقسیم کیسے کرتی ہے۔ اگر کوئی سیاستدان، فوجی، جج یا کوئی بھی سرکاری ملازم ان وسائل میں سے کرپشن کرتا ہے تو یہ بھی منتخب حکومت کی زمہ داری ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے ساتھ سختی سے پیش آئے۔


اب اگر کسی حکومت نے عوام میں مقبولیت حاصل کرنی ہے تو سب سے پہلے اسے مندرجہ بالا ضروریات کی چیزیں عوام کی دسترس میں دینی ہوں گی۔ اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ یہ تمام چیزیں عوام نے اپنے پیسوں سے ہی خریدنی ہوتی ہیں۔ مگر حکومت کے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ سستی اور معیاری چیزیں مہیا کرئے۔ مثلا صاف پینے کا پانی بجائے اس کے کہ لوگ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی بوتلیں خریدیں یہ پانی ان تک مفت پہنچنا چاہیے اور ٹیکس کا جو پیسہ اکٹھا ہوتا ہے اس کو اس کام میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ہوا پانی کے بعد سب سے زیادہ ضروری چیز لباس ہے۔ اگر ملکی معیشت بہتر ہو تو لباس بھی ارزاں قیمت پر حکومت عوام کو مہیا کرسکتی ہے۔ کیونکہ موجودہ دور میں بغیر لباس کے زندہ رہنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اب ان چیزوں کے بعد باری آتی ہے کھانے پینے کی ایشاء کی۔ دیکھا جائے تو ایک زرعی ملک میں کھانے پینے کی چیزیں وافر مقدار میں موجود ہوتی ہے۔

چینی ، گھی، پتی، آتا، دالیں وغیرہ ملک میں ہی کاشت ہوتی ہیں اور ملک کی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ دوسرئے ممالک کو درآمد بھی کی جاسکتی ہے۔ اب اگر یہ چیزیں موجود تو وافر مقدار میں ہو لیکن ان کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہوں تو عوام کبھی بھی کسی بھی حکومت سے خوش نہیں ہوتے۔ یہ زمہ داری بھی حکومت وقت کی ہوتی ہے کہ وہ مندرجہ بالا اشیاء لوگوں کو سستے داموں مہیا کرئے۔

اس سے حکومت کی مقبولیت کا گراف بہت اُنچا چلاجاتا ہے۔ اب آتے ہیں کچھ اصافی چیزوں کی طرف ، جیسے کہ صفائی اگر ملک میں صفائی ہو تو لوگوں کی صحت بہت رہتی ہے۔ پوری دنیا سے سیاح آپ کے ملک کا رخ کرتے ہیں۔ عالمی سطح پر آپ کی پہچان بنتی ہے۔ ہریالی صفائی کی اولین آکائی ہے۔ اگر ملک میں شجر کاری مسلسل عمل کے تحت ہوتی رہے تو خود بخود صفائی ہوتی رہتی ہے۔

کچرے کو فورا ُاٹھایا جائے۔ اور بجائے کے شہر کے اندر ہی کہیں اسے پھنکیں اسے دوردراز کہیں ڈسپوز کرنا کرنا چاہیے۔ کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا۔ آج لوگ اسے کراچی نہیں بلکہ کچراچی کہتے ہیں۔ اور یہ کسی بھی حکومت کی نااہلی کا سب سے بڑا ثبوت ہوتا ہے۔ لہذا عوام میں مقبول ہونے کا ایک زریعہ صفائی بھی ہے۔
اب آتے ہیں تعلیم کی طرف ، تعلیم انسان میں شعور بیدار کرتی ہے۔

اخلاقیات کا درس تعلیم کے زریعے سے ہی انسان میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ حقوق و فرائض سے آگہی بھی تعلیم کی مرہون منت ہے۔ جب تک کسی بھی ملک میں سستی، میعاری اور یکساں نصاب والی تعلیم نہیں ہوگی تب تک کوئی بھی ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کے راز کو پڑھ کر دیکھ لیں اس میں بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ ان اقوام نے سب سے پہلے بہتر تعلیم کی طرف توجہ دی۔

تعلیم ہی ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد بن سکتی ہے۔ فنی تعلیم بھی بہت ضروری ہے۔ بے روزگاری کو تعلیم کے زریعے سے کم کیا جاسکتا ہے۔ تعلیم ہی قوم میں اتحاد پیدا کرتی ہے۔ تعلیم سے ہی رشتوں کو مظبوط کرنے اور ایک دوسرئے کے کام آنے کے ہنر کو سیکھا جاسکتا ہے۔ لہذا اگر حکومت چاہتی ہے کہ لوگ اس کو ایک اچھی حکومت کہیں تو ان کے لیے سستی اور معیاری تعلیم کا بندوبست کیا جائے۔


صحت اور روزگار کا بھی یہی معاملہ ہے۔ اگر حکومتیں اپنے لوگوں کو سستی صحت کی سہولتیں فراہم کردے تو عوام میں مقبولیت بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔ ویسے بھی ہر شہری کا ان چیزوں پر حق ہے۔ اس کے لیے حکومت کو اچھے ہسپتا ل بنانے چاہیں۔ بلدیاتی سطح پر ڈسپنسریوں کا قیام عمل میں لایا جائے دور دراز کے علاقوں میں اچھے ڈاکٹرز تعینات کرنے چاہیں۔ مہنگے سے مہنگا آپریشن بھی مستحق لوگوں کا حکومت اپنے خرچے پر کروائے۔

ہماری موجود ہ وزیر صحت صاحبہ نے سرکاری ہسپتالوں میں سے تمام مفت ٹیسٹ ختم کردیے ہیں۔ اسی طرح اگر حکومت ملک میں صنعت کو فروغ دے گی تو روزگار کے مواقع زیادہ سے زیادہ پیدا ہوں گے۔ اگر روزگار کے مواقعے زیادہ ہوں گے تو ملک خوشحال ہوگا ملک خوشحال ہوگا تو ہر طرف امن و امان اور بہتری پیدا ہوگی۔
اب آتے ہیں انٹرنیٹ یا ٹیکنالوجی کی طرف۔

آج کے دور میں اگر آپ نے ترقی یافتہ اقوام سے مقابلہ کرنا ہے تو اپنی عوام کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنا ہوگا ۔ اسی سے آپ دنیا میں منفرد مقام پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو تعلیم یافتہ اور بہتر روزگار مہیا کرسکتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ انٹرنیٹ کے سستے سستے پیکچ متعارف کروائے تاکہ لوگوں کی اکثریت اس کو استعمال کرئے اور اس سے روزگار کے مواقع پیدا کرئے۔


تو یہ تھے وہ گر جو کسی بھی حکومت کو عوام میں مقبول کرسکتے ہیں۔ اور یہ ویسے بھی حکومتوں کی زمہ داری ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو ہر وہ چیز مہیا کرئے جس کی ان کو ضرورت ہو۔ جب کوئی بھی حکمران یا سرکاری ملازم حلف اُٹھاتا ہے تو اس میں اقرار کرتا ہے کہ وہ اپنے ملک کے عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرئے گا۔ اسی سے ملک کی بقا، خوشحالی صحت اور ترقی کا رازپہیناں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :