حکومت بمقابلہ اینکرز اور میڈیا

بدھ 30 اکتوبر 2019

Hussain Jan

حُسین جان

کسی بھی معاشرے میں مختلف طرح کے لوگ رہتے ہیں۔ ایک طرف کچھ چور ہوتے تو دوسری طرف ایماندار ،کچھ لوگ پاک صاف رہتے تو کچھ غلیظ رہنا ہی پسند کرتے ہیں۔ کسی کا کام انتشار پھیلاناتو کوئی امن و امان کا دائی ہوتا ہے۔ کوئی دشمن تو کوئی سجن ۔ بات پھر وہی ہے کہ معاشرہ ایک طرح سے لوگوں کا مکسچر ہوتا ہے۔ پھر اسی معاشرئے میں سے کچھ لوگ ہوتے ہیں جو حکمرانی کے لیے چن لیے جاتے ہیں۔

یہ لوگ ملک کا نظام چلاتے ہیں ۔ اچھے برئے کے زمہ دار ہوتے ہیں۔ امن و امان اور تمام سہولتیں پہنچانا ان کی زمہ داری ہوتی ہے۔ کچھ کو انتظامی معاملات کے لیے چن لیا جاتا ہے، یا پھر وہ کوئی امتحان دے کر یا پھر سفارش سے آگے آجاتے ہیں۔ یا یوں کہ لیں وہ بیوروکریٹس ہوتے ہیں۔ خیر اسی طرح ایک حکومت ، فوج اور مختلف ادارئے معرض وجود میں آتے ہیں۔

(جاری ہے)

بدقسمتی یا خوش قسمتی سے کچھ افراد صحافی بن کر حکومت اور عوام کے درمیان رابطے کا زریعہ بن جاتے ۔ اور پھر قوم کی بدقسمتی انہیں صحافی حضرات میں سے جو بہت چالاک ہوتے وہ اینکر کہلوانے لگ جاتے ۔ اب یہ اینکرز خود کو ملک کا مالک کل سمجھنا شروع کردیتے۔ چند ایک ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے اداروں اور ریاست کے ساتھ مخلص چلتے ہیں۔ مگر کچھ نامراد ایسے بھی ہیں جو سارا سارا دن ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر ملک و قوم کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔

یہ خود کو دُنیا کے ذہین ترین افراد سمجھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ان کے خیال میں ہم نے جو کہ دیا وہی حرف آخر ہے۔ بلکہ کچھ سمجھ دار قسم کے لوگ تو ان کو کرپٹ ترین لوگوں میں شمار کرتے ہیں۔ کچھ تو اچھے بھلے جاسوس بھی ہیں۔ کبھی ہزاروں میں کماتے تھے آج کروڑوں میں کھیلتے ہیں۔ سکوٹر کو کک مارنے والے پراڈو سے کم کی بات نہیں کرتے۔ ان کی اپنی اپنی سیاسی وابستگیاں ہوتی ہیں۔

سیاستدانوں کی شان میں قصدئے کہتے اور لکھتے ہیں۔ ان کا ایمان لفافے اور پلاٹ ہیں ان کی خاطر کسی بھی حد تک جاتے ہیں۔ کلرک سے لے کر وزیرآعظم تک یہ سب کو بلیک میل کرنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ جس کی جتنی حثیت ہوتی وہ اتنا ہی فائدہ اُٹھاتا ہے۔ کچی بستی سے لے کر پوش علاقوں تک میں انہوں نے ٹھکانے بنا رکھے ہیں۔ ہم نے کتابوں میں پڑھ رکھا ہے ریاست کے ستونوں میں ایک اہم ستون صحافت بھی ہے۔

پر جب اس کا رنگ زرد ہوجائے تو یہ ملک میں انتشار کا باعث بنتی ہے۔ آج کا صحافی کسی کوعزت دینے کو تیار نہیں ۔ یہ ریاست کے قوانین کی دھجیاں سر عام آڑاتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ ہر قانون سے بالاتر۔ اگر صحافیوں کو کہا جائے کہ وہ قائدے اور قانون کے مطابق کام کریں تو فورا ان کو آزادی اظہار رائے اور صحافت پر قدغن جیسے الفاظ یاد آجاتے ہیں۔
مزئے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کا ہر صحافی ہر اس بندے کو ایماندار سمجھتا ہے جس سے ان کے تعلقات اچھے ہوں۔

جو ان کو کھانے پر بلائے ان کی عیاشی کا بندوبست کرئے یہ اسے مائی باپ تک بنا لیتے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیں کیا ایسی ہوتی ہے صحافت۔ صحافت ایک امانت ہے موجودہ دور میں اس کا مثبت رویہ کسی بھی ریاست کے امیج کو بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ آج ملک نازک صورتحال سے گزر رہا ہے۔ ایسے میں ہمارا میڈیا اور اینکرز خوف کی فضاء پیدا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

یہ پنجاب کے لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ ایک پنجابی وزیرآعظم کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ اسے علاج نہیں مل رہا ۔ جبکہ میں اپنے گزشتہ کالم میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں کہ میاں محمد نواز شریف کو نیب کی جیل میں کیسے رکھا گیا ہے اور کس طرح ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھا جاتا رہا ہے۔ یعنی دو دو ڈاکٹر ہر وقت ان کے علاج معالجے کے لیے موجود رہتے تھے۔ کھانا گھر سے آتا تھا۔

ناشتے میں ڈرائی فروٹ اور فریش جوس کا استعمال کرتے تھے۔ صبح شام واک ان کا معمول تھی۔ اب ایک قیدی کو اس سے زیادہ کیا سہولتیں دی جاسکتی ہے۔ حکومت نے شریف اور زرداری فیملی کے قیدیوں کو تمام سہولتیں پہنچانے کی کوشش کی ہے۔
اب آزادی مارچ کے نام پر جو ملک میں فساد بھرپا کیا جارہا ہے اسے ہی دیکھ لیں۔ پہلے ہی ہمارے ملک کو مذہبی انتہا پسند کہا جاتا ہے اوپر سے مولانا صاحب نے ڈنڈا بردار مولویوں کا رُخ دارلحکومت کی طرف موڑ دیا ہے۔

اور ہمارے بہت سے نام نہاد اینکرز اور کالم نگار اس فساد کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ کیا یہ ریاست کی خدمت ہے۔ وہ ریاست جو آپ کو امن و امان اور روزگار کی ضمانت دیتی آپ اسے ہی کمزور کر رہے ہیں۔ آپ کو حکومت سے سو طرح کے اختلافات ہوسکتے ہیں۔ لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کو کمزور کردیاجائے ۔ ملک کی فوج کے خلاف لکھا اور بولا جائے۔ یہ کہاں کی صحافت ہے بھائی۔ ہم نے تو ایسی صحافت نا کبھی دیکھی اور نا کبھی پڑھی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :