کرونا ہمیں بے نقاب کر رہا ہے

جمعہ 3 اپریل 2020

Hussain Jan

حُسین جان

سماجی طور پر کرونا نے ہمیں بے نقاب کرنا شروع کردیا ہے۔ اگر ہم ان احتیاتی تدابیراوران حالات میں اپنے رہن سہن کا باریک بینی سے مشاہدہ کریں تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ یہ تو وہ کام ہیں جو ہمیں عام حالات میں بھی کرنے چاہئیں تھے۔ بات شروع کرتے ہیں ان آوارہ گرد نوجوانوں سے جو گلی کوچوں میں جابجا نظر آتے تھے۔ ان میں سے بہت سے تو پہلے ہی بے روزگار تھے لیکن ان کے ساتھ ساتھ وہ نوجوان بھی شامل ہوجاتے تھے جو کسی نا کسی کام پر لگے ہوئے تھے۔

ان کا طریقہ واردات یہ تھا صبح سے دوپہر تک کا وقت چوراہوں پر گزارتے آتے جاتے لوگوں پر آوزیں کستے ،آتی جاتی خواتین کو حوس بھری نگاہوں سے تکتے۔ جیسے ہی دوپہر کا وقت ہوتا یہ لوگ گھروں میں کھانا کھانے چلے جاتے۔ کام کاج تو کوئی تھا نہیں اس لیے ساری دوپہر گھر میں پڑئے سوئے رہتے۔

(جاری ہے)

اس کے بعد دوسرا فیس شروع ہوتا تھا۔ اور اس فیس میں ایسے نوجوان بھی شامل ہوجاتے جو کوئی نہ کوئی دھندہ کرتے تھے۔

اب یہ لوگ آدھی رات تک گلیوں میں پھرتے اور لوگوں کو تنگ کرتے دیکھائی دیتے۔ اگر کوئی بھلا شخص ان کو روکنے یا سمجھانے کی کوشش کرتا تو یہ اس کو آڑے ہاتھوں لیتے۔ اور اب کیا ہے یہی آوارہ گرد لونڈے لپاڑے کرونا اور پولیس کے ڈر سے گھروں میں دبکے بیٹھے ہیں۔ ہاں اکا دکا نظر آجاتے ہیں مگر وہ آٹے میں نمک برابر ہے۔ اب آتے ہیں ایسے لوگوں کی طرف جو نام نہاد تفریح کے نام پر موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں میں فضول گھوما کرتے تھے جس سے فضائی آلودگی میں مزید آضافہ ہوتا تھا۔

ہماری قوم کا یہ المیہ بن چکا ہے کہ اگر باتھ روم میں بھی جانا ہو تو گاڑی یا بائیک استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پولیس نے ان لوگوں کو بھی کافی حد تک کنٹرول میں رکھا ہوا ہے۔ اور آپ یقین کریں اگر مجبوری کے تحت کبھی باہر جانا ہو تو لاہور جیسے گنجان آباد شہر کی آب و ہوا بھی کافی بہتر محسوس ہوتی ہے۔
مان نا مان میں تیرا مہمان والی روایت بھی کافی حد تک کم ہوتی نظر آرہی ہے۔

کرونا کی وجہ سے بن بلائے مہمانوں کی تعداد میں بھی خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آرہی اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ میزبان جو ان بن بلائے مہمانوں کے لیے انواع و اقسام کے کھانے بناتے تھے ان سے بھی جان چھوٹ چکی ہے۔ دس پندرہ لوگوں کے لیے کھانا بنانے پر اچھا خاصا خرچہ بھی ہوجاتا تھا۔ لہذا اب پیسے کی بچت بھی ہورہی ہے۔ یہ کرونا کی وجہ سے ہی ہے کہ لوگ اب خود ایک دوسرئے کو فون کر کے بتا رہے ہیں کہ جناب جب تک یہ کرونا کی وبا ختم یا کم نہیں ہوتی تب تک نا تو ہم آپ کے ہاں مہمان بنیں گے اور نا ہی آپ یہ تکلیف اُٹھاییے گا۔


چلتے چلتے شادی بیاہ کی تقریبات کی بھی بات ہوجائے کہ سینکڑوں قسم کی فضول رسومات جو کہ ہم لوگ شادیوں میں ادا کرتے تھے ان سے بھی چھٹکارہ نصیب ہوگیا ہے۔ کچھ لوگوں نے تو اس سے بھی شکر ادا کیا ہے کہ جس شادی میں لاکھوں روپے لگ رہے تھے وہ اب چند ہزار بلکہ چند سو میں انجام پارہی ہیں۔ یعنی کرونا نے ہمیں یہاں بھی مات دے دی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم ان فضولیات کے بغیر بھی شادی کرسکتے ہیں۔


چہرئے پر ماسک لگانا، سینیٹائزر کرنا ہاتھ بار بار دھونا یہ وہ کام ہیں جو ہمیں عام حالات میں بھی سر انجام دینا چاہیے اور یہ جو ابھی ہم ایسا کررہے ہیں تو صرف کرونا کے ڈر سے کر رہے ہیں۔ جبکہ ہمیں چاہیے کہ یہ کام مسلسل جاری و ساری رکھیں۔
افسوس کی بات ہے جب حکومتیں لوگوں کو کہتی ہیں کہ بجلی بچانے یا آلودگی کو کم کرنے کے لیے دکانیں اور بازار رات آٹھ بجے بند کردیں۔

تب پورا معاشرہ ہی اس فیصلے کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ جبکہ آج کرونا کی وجہ سے چوپیس گھنٹے دُکانیں بند کرنا پڑرہی ہیں۔ کاروبار کا بہترین وقت صبح سے آٹھ بجے تک ہی ہے۔ لیکن ہمارئے ہاں مارکیٹوں میں یہ گندی عادتیں پڑی ہوئی ہیں کہ گیارہ بارہ بچے دکانیں کھولتے ہیں اور آدھی رات تک کھلی رکھتے ہیں۔
اس کے علاوہ بھی بہت سے ایسے کام ہیں جو ہمیں عام حالات میں کرنے چاہیے لیکن ہم نہیں کرتے۔

یہ تو کرونا نے ہمیں بے نقاب کردیا ہے کہ ہم لوگ کس قدر فضول کاموں میں مشغول تھے۔ کیسی کیسی غیر اخلاقی اور مہنگی رسومات ادا کر رہے تھے۔ اللہ کرئے ہمیں جلد ہی اس کرونا وبا سے نجات مل جائے لیکن میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ بھائی جب ہم کرونا کے ڈر سے بہت سی فضول چیزوں کو چھوڑ سکتے ہیں تو کرونا وبا کے بعد بھی ان فصولیات کو چھوڑ سکتے ہیں ۔ جو کام بہت ضروری ہوں بس وہی سرانجام دیں۔ اس سے ملک و قوم کا ہی فائدہ ہوگا۔ ملنا جلنا، آوارا گردی، رسومات، فضول گھومناپھرنا ، لوگوں سے خوامخواہ ہی گلے ملنا ، رات گئے تک کاروبار کو کھولے رکھناجیسے کاموں سے اجتناب کیجیے گا۔ اسی میں ہم سب کی بہتری ہے۔ اللہ اس قوم پر رحم نازل فرمائے اور ہم ہر طرح کی آفات سے محفوظ رکھے۔ آمین!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :