Happy Prince

جمعرات 25 مارچ 2021

Hussain Jan

حُسین جان

جب تک پرنس زندہ رہتا ہے وہ خوش و خرم زندگی گزارتا ہے۔ محل کی چاردیواری میں اس کے لیے تمام آرائش زندگی موجود ہوتی ہیں. اس کے لیے راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ مہنگائی، صحت، تعلیم اور غربت جیسے الفاظ سے یہ پرنسس ناآشنا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ کھیلنے والے بھی شہزادے،شہزادیاں اور وزیر و مشیران کے بچے ہوتے ہیں۔ ان کو بالکل نہیں پتا ہوتا کہ محل سے باہر کی زندگی کیا ہے۔

وہ سمجھتے ہیں ہم ایک ایسی ریاست میں راہ رہے ہیں جہاں سبھی ہماری طرح خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے لیے کئی کئی خادم اور خادمایں موجودہوتی ہیں۔ ان کو کانٹا بھی چبھ جائے تو ڈاکٹروں کو دوسرئے ممالک سے بلوا لیا جاتا ہے۔ یا پھر انہی کو باہر بھجوا کر علاج دارو کروایا جاتا ہے۔ ان کے محل سے گزرتی نہر میں کوئی خودکشی نہیں کرتا۔

(جاری ہے)

ان کے باغات میں سے کوئی پھل توڑ کر نہیں کھاتا۔

ان محلات میں کسی فقیر کا گزر ممکن نہیں۔ دیواروں سے پرے کی زندگی ان کے لیے ان دیکھی ہوتی ہے۔ گاڑی سے گاڑی کا سفر پروٹوکول کی چھتری تلے گزرتا ہے۔
پھر ایک دن پرنس کا انتقال ہوجاتا ہے۔ اس کا بڑا سا مجسمہ بنا کر شہر کے دوراہے پر نصب کردیا جاتا ہے۔ لوگ حیرت سے اس مجسمے کو دیکھتے ہیں۔ بڑے بوڑھے غور فرماتے ہیں کہ آخر والی شہر کو کیا ہوگیا۔

بچے دانتوں میں انگلیاں دبائے دیکھتے ہیں یہ کون ہے جو دکھنے میں تو ہمی جیسا لگتا ہے پر اسے کبھی دیکھا نہیں۔ پھر ایک دن مجسمہ دیکھتا ہے کہ ایک فاختہ اس کی اس تلوار کے اوپر بیٹھ گئی ہے جس تلوار کا دستہ ہیرے جواہرات سے مزین ہے۔ مجسمے کی آنکھوں میں لال جڑئے ہیں۔ فاختہ بڑی حیرت سے اس مجسمے کو دیکھتی ہے اور حسرت کرتی ہے کہ اے مجسمے تو کس کا مجسمہ ہے۔

جواب آتا ہے۔
تھا میں ایک شہزادہ جس نے زندگی میں سوائے سکھ کے کچھ اور نہیں دیکھا. جس عوام کے ٹیکس پر میں عیاشی کرتا تھا آج اس جبوترے پر پورا شہر دیکھ کر احساس ہورہا ہے کہ غربت تو بہت ہے. تعلیم بھی نہیں ہے جاہلیت عروج پر ہے. اناچ موجود نہیں.
خوش پوش شہزادا بولا اے میری پیاری ننھی منی فاختہ جا مجھ میں جڑے ہیرے جوہرات اکھاڑ کر لے جاو اور ایک ایک کرکے ضرورت مندوں کو دے دو.
دور کہیں ایک سرکس کا جوکر اس کہانی کو ختم کرنے کے بعد سوچنے لگا کہ کیا ایسا اج بھی ہوتا ہے. پرنس اور پرنسس مہربان ہوتے ہیں. کیا اب بھی وہ مرنے کے بعد رحم دل بن جاتے یا زندہ ہی لوگوں کی مدد کرتے ہیں. اس نے پھر اس کہانی کا موازنہ اپنے ملک کے موجودہ حالات سے کرنا شروع کردیا. پہلے تو سوچا کہ یہاں بادشاہت نہیں جمہوریت ہے. پھر سوچا چلو کوئی بات نہیں جمہوریت کا موازنہ ہی کر لیتا ہوں. کیونکہ کچھ حکمران تو بادشاہ ہی تو ہوتے ہیں. پھر خیال آیا میرے ملک کے بادشاہ تو اس کا خون نچوڑ کر باہر بھاگ گئے. ان کے شہزادے شہزادیاں اب میدان میں اتر چکے ہیں ان کے بعد  ان کی آل اولاد ملک سمبھالے گی. کئی کئی سال حکومت کرکے ان بادشاہوں اور شہزادے شہزادیوں نے اس ملک کو کھوکھلا کردیا ہے. اب کیا ہوگا کچھ پتا نہیں. کوئی اینٹ سے اینٹ بجا رہا ہے تو کوئی دمادم مست قلندر چاہتا ہے. اور یہ سب کرنے کو اندھن عوام کی شکل میں موجود ہے.
آج کے شہزادے مرنے کے بعد بھی اپنی  عوام کو کچھ نہیں دیتے. ان کے پیٹ اور نسلیں بہت بڑی ہوتی ہیں بھرنے کو ہی نہیں آتیں. اب ہیپی پرنس نہیں آتے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :