آخر کب تک

بدھ 4 اگست 2021

Iman Saleem

ایمان سلیم

ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں انصاف کے نام پہ کئی قوانین بنائے جاتے ہیں۔ لیکن ان قوانین پر عمل کرنے والا کوئی نہیں۔ قانون کو ماننے والا کوئی نہیں۔ قانون کی حیثیت صرف محض ایک کاغذ کی حد تک محدود ہو چکی ہے۔ قوانین ہزاروں لیکن صرف نام کے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص جرم کرتا ہے۔ تو وہ ایک طرح سے مطمئن ہوتا ہے۔ کہ جرم کیا ہے کون سا سزا ہوگی۔

اور اگر کوئی مجرم ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتا ہے۔ تو وہ دولت کے زور پہ قانون کی گرفت سے باہر ہوتا ہے۔ کچھ دنوں سے کئی دل دہلا دینے والے افسوس ناک واقعات سامنے آرہے ہیں۔ کہیں کسی حوا کی بیٹی کا ریپ ہونے کے بعد اسے قتل کر دیا جاتا ہے۔ اور کبھی حوا کی بیٹی کا سر تن سے اس لیے جدا کر دیا جاتا ہے۔ صرف اس بنیاد پہ کہ وہ خود کو ظلم و ستم سے بچانا چاہتی ہے۔

(جاری ہے)

کتنی ہی نور اور ماہم جیسی بیٹیاں اور ہوں گیں جن کے ساتھ درندگی کے کئی واقعات پیش آتے ہوں گے۔ کچھ روز سے ملک میں زیادتی جیسے کئی واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے واقعات میں ملوث مجرموں کی یہی سوچ ہوتی ہے کہ وہ قانون کی پکڑ سے بچ جائیں گے۔ کیونکہ ہمارے ملک میں آج تک کوئی ایسی سخت سزا دی ہی نہیں گئی۔ جس سے سب عبرت حاصل کریں۔ کئی ایسے بل پاس ہو چکے ہیں۔

جس میں بچوں اور عورتوں کی حفاظت سے متعلق بحث کی گئی تھی۔ جیسے زینب الرٹ بل۔ لیکن انتہائی افسوس کہ ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں کسی بھی چیز پر اور کسی بھی قانون پر کوئی عمل نہیں ہوتا۔ اگر ایک دفعہ ہی کسی مجرم کو سخت عبرت کا نشان بنا دیا جائے تو شاید پاکستان سے جرائم کا خاتمہ ہو جائے۔ معاشرے سے ایسے چند افراد کو سخت سزا دینے کی ضرورت ہے۔ جو ذہنی طور پر بیمار ہیں اور گندی ذہنیت رکھتے ہیں۔ معاشرے سے ایسے لوگوں کے خاتمے کی ضرورت ہے۔ تاکہ ہر انسان کو انصاف مل سکے۔ جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ ریپ کرنے والے کو سرعام پھانسی دینی چاہیے۔ تاکہ اسے عبرت کا نشان بنایا جاسکے۔ اور ملک سے ایسی درندگی کا خاتمہ ہو سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :