ماڈرن جہالت

جمعہ 11 دسمبر 2020

Iqbal Hussain Iqbal

اقبال حسین اقبال

نت نئی سائنسی تخلیقات کے وساطت سے دنیا کو ورط حیرت میں ڈالنے اور ہوا کے دوش پر محو پرواز اکیسویں صدی کا انسان بڑی کروفر سے خود کو مہذب،تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ تسلیم کرتے ہوئے'قبل از اسلام کو زمانہ جاہلیت کے القابات سے پکارتا ہے۔مگر یہ بات بھی ہمیں تسلیم کرنی ہوگی کہ آج کے ماڈرن دور کا ماڈرن انسان اپنی ہوس کی تسکین کے لیے ایسے ایسے ہیچ قسم کے افعال انجام دے رہا ہے کہ زمانہ جاہلیت سے میلوں آگے نکل چکا ہے اور اسے اشرف المخلوقات کہتے ہوئے بڑی شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔


یہ سنتے اور پڑھتے آرہے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کرتے تھے'مگر آپ کو یاد ہوگا چند ماہ قبل ایک ایسے بدچلن باپ کی کہانی منظرِ عام پر آئی تھی'جس نے دنیا کے تمام والدین کا سر شرم سے جھکا دیا تھا۔

(جاری ہے)

بیٹی گھر میں اکیلی ہوتی تو یہ سفاک باپ گھر میں داخل ہوتا،اسے گندی نظروں سے دیکھتا،عجیب و غریب حرکتیں کرتا،اسے ٹچ کرتا اور غلط کام میں ساتھ دینے کے لیے پیسوں کی آفر کرتا۔

کسی کو بتانے کی صورت میں جان سے مار دینے کی دھمکی دے کر خاموش کرا دیتا۔یہ سلسلہ پانچ مہینوں سے چل رہا تھا۔لڑکی سے ضبط نہ ہوسکا اور ماں سے شکایت کر دی'مگر یہ شخص قرآن شریف پر ہاتھ رکھ کر جھوٹی قسم اٹھاتا ہے اور اپنے کالے کارناموں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ماں کو بیٹی کی باتوں پر بالکل بھی یقین نہیں آیا،ماں تو کیا بلکہ دنیا کا کوئی بھی باغیرت انسان اسے تسلیم نہیں کر سکتا،آخر ایک باپ سگی بیٹی سے حیوانی سلوک کیسے کر سکتا ہے۔

مگر ایک دن گھر میں خفیہ کیمرہ لگا کر اس بھیڑے کا مکروہ چہرہ دکھانے میں کامیاب ہوتی ہے۔
مگر ٹھہرئے یہ دنیا میں اپنی نوعیت کی پہلی داستان نہیں،اس قسم کا ایک اور دل دہلا دینے والا واقعہ اوکاڑہ میں پیش آیا تھا۔ایک پچاس سالہ گورکن جو دفنانے کے بعد مردہ خواتین اور بچیوں سے جنسی بدفعلی کرتا ہوا پکڑا گیا تھا۔جبکہ ایک اور شخص جس نے تقریباً پچاس مردہ خواتین کی آبروریزی کی قابلِ ملامت فعل انجام دیا تھا۔

اسی طرح 2011ء میں بھکر میں پولیس نے قبروں سے مردے نکال کر کھانے والے دو بھائیوں کو گرفتار کیا تھا۔آدم خور ملزمان نے کئی مردوں کے گوشت کا سالن بھی پکا کر کھا چکے تھے۔جنہوں نے خونخوار وحشی جانوروں اور زمانہ جاہلیت کو بھی شرمندہ کر دیا تھا۔آپ روزانہ میڈیا پر نظر رکھیں۔آپ کو اسی نوعیت کے سینکڑوں شرمناک واقعات دیکھنے کو ملیں گی۔
مثلاً یہ کہ کہیں شوہر اپنی بیوی کو زہریلے سانپ سے ڈسوا کر قتل کر دیتا ہے تو کہیں رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں سحری کے وقت گرم کھانا نہ دینے پر اپنی شریکِ حیات کو گولی مار کر انسانیت کو شرمسار کرتا ہے۔

کہیں شور مچانے پر سفاک انسان اپنی سات سالہ ننھی بھتیجی کو موت کی نیند سلا دیتا ہے۔کہیں پر بچوں کی لڑائی کو بنیاد بنا کر فائرنگ کا تبادلہ ہوتا ہے اور درجنوں لاشیں گرا دئیے جاتے ہیں۔کہیں ماں اپنی ممتا کا گلہ گھونٹتے ہوئے بیٹی کو چھری کے پے در پے وار سے ذبح کر دیتی ہے تو کہیں بیٹا ماں کا قتل کر کے اپنی جنت کو اجاڑ دیتا ہے۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بچوں کے سامنے اُن کی مادر کو بدقماش افراد سرِ عام جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں تو کہیں استاد کے ہاتھوں طلبہ جنسی درندگی کا نشانہ بنتے ہیں۔

مزید برآں غیرت کے نام پر قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا جاتا ہے۔اس زمانے کو کیا نام دیا جائے جہاں گھر کے پنجرے سے پالتو طوطا اڑ جانے پر مالک اور اس کی بیوی نے آٹھ سالہ معصوم ملازمہ کو جان سے مار دیا تھا۔جی ہاں!یہ ہے اکیسویں صدی'جہاں ڈگری ہولڈرز اور پڑھے لکھے افراد کی زیر سایہ ایک ایسی ماڈرن جہالت فروغ پا رہی ہے جس کا زمانہ جاہلیت میں تصور بھی نہیں کیا جاتا تھا۔راقم الحروف کی دانست میں اس دور کو جہالت کا حقیقی دور کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :