پرائیویٹ اساتذہ کی مشکلات

منگل 29 دسمبر 2020

Iqbal Hussain Iqbal

اقبال حسین اقبال

مکرمی!ایک استاد کو ضروریاتِ زندگی اور دیگر لوازمات کو پورا کرنے کے لیے معقول تنخواہ درکار ہوتی ہے تاکہ وہ کسی معاشی دباؤ کے بغیر قوم کے نونہالوں کی سہی معنوں میں آبیاری کر سکے،مگر حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز کی نجی تعلیمی اداروں میں قلیل اور تضحیک آمیز تنخواہ ان کی بنیادی ضروریات بھی پورا کرنے سے قاصر رہتی ہے اور سالانہ نہایت کم شرح سے تنخواہوں کے بڑھنے کا معیار بھی بڑا مضحکہ خیز ہے۔

انہیں وہ مراعات بھی میسر نہیں'جو حکومتی ملازمین کو حاصل ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی باضابطہ پلیٹ فارم ہے'جہاں ان کے مسائل کے حل اور حقوق کی آواز حکامِ بالا تک پہنچایا جا سکے۔
پرائیویٹ اساتذہ کو تنخواہیں فیسوں کی ادائیگی کے بعد ہی ملتی ہیں اور ان کے پاس فیسوں کے علاوہ کوئی اور راہِ حل نہیں۔

(جاری ہے)

جبکہ بعض والدین چھٹیوں کی فیسیں تک دینے سے پہلوتہی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

دوسری جانب سوشل میڈیا پر فیسوں کی وصولی کے خلاف مختلف تحریکیں چلانے اور اساتذہ کی ہرزہ سرائی کرنے والے افراد کے بے تکے اور عقل سے ماورا بیانات دیکھ کر کلیجہ ہلتا ہے۔
پرائیویٹ اداروں کو مافیاز کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے۔ان کا نعرہ ہے کہ جب چھٹیوں میں پڑھایا ہی نہیں تو فیسیں کس بات کی؟حالانکہ تعلیمی ادارے چھٹیوں کو ٹریننگ،ورک شاپس اور ماہانہ و سالانہ منصوبہ بندی کی صورت میں استعمال میں لاتے ہیں۔

اس کے علاوہ اساتذہ گھروں پر اسائنمنٹس چیک کرتے ہیں اور کلاسوں کی تیاری کرتے ہیں۔اسی طرح سال بھر والدین کو مطمئن کرنے کے ساتھ پبلک ڈیلنگ بھی ہوتی رہتی ہے۔ان تمام چیزوں کو مدِنظر کیوں نہیں رکھا جاتا؟
حالیہ عالمی وبا نے وطنِ عزیز میں جو قہر برپا کیا ہے اس سے ملکی معیشت مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔مگر حکومت نے دیہاڈی دار طبقے کی مشکلات کو بھانپ لیا ہے اور قلاش افراد کے لیے احساس پروگرام کے زریعے مدد بھی کی ہے جبکہ اس لاک ڈاؤن کے سبب پرائیویٹ تعلیمی ادارے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

اساتذہ کے لیے معاشی مشکلات پیدا ہوگئیں ہیں اور گھر کے افراد فاقہ کشی کا شکار ہیں۔اگر اس سیکٹر کی جانب خصوصی توجہ نہیں دی گئی تو مستقبلِ قریب میں ان اداروں کی بقا مشکل میں پڑ جائے گی اور اکثر اساتذہ کا فکرِ معاش کی تلاش میں اس پیغمبرانہ پیشے کو خیرباد کہنے کا قوی امکان پایا جاتا ہے۔جس کا بوجھ براہ راست حکومت کے کاندھوں پر آئے گا۔

کیونکہ اس وقت حکومت پاکستان کا نصف بوجھ نجی تعلیمی اداروں نے اٹھا رکھا ہے۔یہ ادارے ہمیشہ ملکی تعمیر و ترقی میں ہراول دستے کا کردار ادا کرتے ہیں اور اساتذہ کی ایک کثیر تعداد کا روزگار اس سیکٹر سے وابستہ ہے۔لہٰذا ریاستِ مدینہ کے فرماں رواؤں سے دست بستہ گزارش ہے کہ آپ ان پرائیویٹ سیکٹرز کے مسائل کو درک کر کے ان کو حل کرنے کی کوشش کریں اور ان کے لیے خصوصی گرانٹ کا اعلان کیا جائے تاکہ قوم کے ان عظیم محسنوں کا معاشی پہیہ چلتا رہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :