تعلیم کیا ہے ؟

جمعہ 20 مارچ 2020

Javed Iqbal Bhatti

جاوید اقبال بھٹی

تعلیم اپنے وسیع تر معنوں میں وہ چیز ہے جس کے ذریعے لوگوں کے کسی گروہ کی عادات اور اہداف کی ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتے ہیں۔ اپنے تکنیکی معنوں میں اس سے مراد وہ رسمی طریقہ کار ہے جس کے ذریعے ایک معاشرہ اپنی مجموعی علم، ہنر روایات اور اقدار کی ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل کرتا ہے، عموماً سکول میں کی جانے والی تربیت۔

تعلیم ایک ہنر ہے جو کہ انسان کو بہت کچھ سکھاتا ہے ۔کتابیں ہر کوئی پڑھتا ہے پر اس سے سیکھتا کوئی کوئی ہے۔ ہمیں چاہیے ہم کتابیں پڑھیں صرف نمبروں کے لئے یا جاب حاصل کرنے کیلئے نہیں بلکہ ایک اچھا انسان بننے کیلئے ، کیونکہ کتابیں پڑھ لینے سے جس میں ادب و احترام، تمیز اور سلیقہ، رہن سہن، اخلاق و رویہ نہ آئے تو وہ کتابیں پڑھنا کسی کام کے لائق ہی نہیں ہیں۔

(جاری ہے)

انسان کو قابل بنانے والا اُس کا علم ہوتا ہے جو کہ وہ اپنی زندگی کے مختلف مراحل سے سیکھتا ہے۔ جو انسان گر تا ہے وہ ہمیشہ گر کر کامیاب انسان بن جاتا ہے۔ بار بار گرنا بھی نا اہلی اور بے و قوفی ہوتی ہے ، ایک بار گریں پر گر کر کامیاب انسان بن جائیں۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے علم حاصل کیا او ر اپنی زندگی میں علم کو اپنایا اور بہت روشن مثالیں موجود ہیں جنہوں نے علم سے ادب و اخلاق ، رویہ درست کیا اور پھر انہوں نے بہت بڑا مقام حاصل کیا۔

انسان کو ہمیشہ اپنے بڑوں کے پاس بیٹھنا چاہیے کیونکہ اُنکے پاس زندگی کہ وہ تجربات ہوتے ہیں جو کہ وہ اپنی زندگی میں کر چکے ہوتے ہیں اور ان کی اچھی نصیحت بھی انسان کو کامیاب بنا دیتی ہے۔تعلیم کچھ رسمی بھی ہوتی ہے اور غیر رسمی بھی ہوتی ہے۔
تعلیم کے چار مراحل ہوتے ہیں۔۱۔اعلیٰ تعلیم،۲۔ تعلیم بالغاں،۳۔ثانوی تعلیم ،۴۔ پیشہ ورانہ تعلیم۔

۱۔اعلیٰ تعلیم: سے مراد ایسی تعلیم لی جاتی ہے کہ جو کسی جامعہ (یونیورسٹی) ، کالج کی جانب سے مہیا کی جاتی ہو اور جس کے اختتام یا تکمیل پر متعلقہ شخصیت کو اپنی تعلیم کے شعبہ میں ایک ماہر کی حیثیت سے کام کرنے کا اجازہ (لائسنس) اور کوئی سند (سرٹیفیکیٹ)عطا کیا جائے۔یہ سند یا تو ایک درجہ(ڈگری) ہوسکتی ہے جو عموماً ایک جامعہ کی جانب سے عطاکی جاتی ہے یا یہ پھر کوئی دانشنامہ(ڈپلومہ)بھی ہو سکتا ہے جو عموماًکسی دانشگاہ کی جانب سے عطا کیا جاتا ہے۔

۲۔ تعلیم بالغاں:ایک ایساتدریسی طریقہ کار جس کے تحت ان بالغ افراد کو بنیادی تعلیم دی جاتی ہے جس سے وہ پڑھنے اور لکھنے کے قابل ہو سکیں۔یہ اس طریقہ کی منصوبہ بندی میں مثبت اور منفی دونوں پہلو ہو سکتے ہیں۔۳۔ ثانوی تعلیم: انگریزی میں (سیکنڈری تعلیم)میں بین الاقوامی معیار درجہ بندی برائے تعلیم دو مراحل کا احاطہ کیا جاتا ہے ۔ لوئر سکینڈری ایجوکیشن یا زیریں ثانوی تعلیم اور اپر سکینڈری ایجوکیشن یا بالائی ثانوی تعلیم۔

۴۔ پیشہ ورانہ تعلیم :اس میں ٹیکنکل تعلیم آتی ہے جیسے کوئی ڈپلومہ کورسز کرتے ہیں (الیکٹریکل، مکینکل وغیرہ)، یہ تعلیم گورنمنٹ یا پرائیویٹ کالجوں میں حاصل کی جاتی ہے جس سے کوئی پیشہ اپنایا جاتا ہے۔اقوام متحدہ ہر سال انسانی ترقیاتی اشاریہ شائع کرتی ہے جس میں مشعر تعلیم (ایجوکیشن انڈیکس)، خام ملکی پیداوار(گراس ڈومیسٹک پروڈکٹ)اور مشعر متوقع زندگی(لائف ایکسپ یکٹینسی انڈیکس)بھی شامل ہوتے ہیں۔

وہ تمام ممالک ترقی یافتہ شمار کیے جاتے ہیں جس کا سکور 0.8یا اس سے زیادہ ہے۔
تعلیم کا آغاز تاریخ سے شروع ہوا چونکہ بالغوں نے نوجوانوں کو اپنے معاشرے میں سمجھے جانے والے علم اور صلاحیتوں کی تربیت دی ۔قبل از خواندہ معاشروں میں یہ زبانی اور مشابہت کے ذریعہ حاصل کیا گیاتھا۔کہانی سنانے سے ایک نسل سے دوسری نسل کیلئے علم اقدار،اور مہارتیں گزر گئیں ۔

جب ثقافتوں نے اپنے علم کو مہارت سے ہٹ کر بڑھانا شروع کیا تو مشابہت کے ذریعے آسانی سے سیکھا جا سکتا تھا۔رسمی تعلیم تیاری ہوئی مڈل بادشادہی کے وقت مصر میں اسکول موجود تھے۔افلاطون نے ایتھنز میں اکیڈمی کی بنیاد رکھی ، جو یورپ میں اعلیٰ تعلیم کا پہلا ادارہ ہے ۔ مصر کا اسکندریہ شہر (الیکس اجیپٹ3)، قبل مسیح میں قائم ہوا۔قدیم یونان کے دانشوروں کا گہوارہ بطور ایتھنزکا جانشین بن گیا۔

وہاں اسکندریہ کی عظیم لائبریری تیسری صدی قبل مسیح میں تعمیر کی گئی تھی۔476عیسوی میں روم کے خاتمے کے بعد یورپی تہذیبوں کو خواندگی اور تنظیم کے خاتمے کا سامنا کرنا پڑا۔چین میں ریاستہ لوکا،کنفیوشس(551-7979) قبل مسیح ملک کا سب سے بااثر قدیم فلاسفر تھا، جس کا تعلیمی نقطہ نظرچین اور معاشرے جیسے کوریا،جاپان اور ویتنام کے معاشروں پر اثر انداز ہے۔

کنفیوشس نے شاگردوں کو اکٹھا کیا اور ایک ایسے حکمران کی تلاش میں بیکار تلاش کیا جو اچھی حکمرانی کیلئے اپنے نظریات کو اپنائے، لیکن ان کے انتخاب کے پیرو کاران کے انتخاب کو لکھتے رہے اور جدید دور تک مشرقی ایشیاء میں تعلیم کو متاثر کرتے رہے۔از ٹیکس نے تعلیم کے بارے میں بھی ایک بہتر ترقی یافتہ تھیوری رکھی تھی جس کا نہواٹل میں ایک مساوی لفظ ہے۔

اس کا مطلب ہے ”کسی شخص کو پالنے یا تعلیم دینے کا فن یا مردوں کو تقویت دینے یا پالنے کا فن “۔یہ تعلیم کا ایک وسیع تصور تھا ، جس میں یہ تجویز کیا گیا تھاکہ اس کی شروعات گھر سے ہوتی ہے ، جس کی مددباضابطہ تعلیم سے حاصل ہوتی ہے ،اور معاشرتی زندگی سے تقویت پذیر ہوتی ہے ۔ مورخین کا کہنا ہے کہ سماجی طبقے اور مصنف سے قطع نظرہر ایک کیلئے ضابطہ تعلیم لازمی تھی۔

یہاں نییکسٹلا مائچلزٹلی کا لفظ بھی تھا،جو چہرے کو دانائی دینے کا کام ہے یہ تصورات تعلیمی طریقوں کے ایک پیچیدہ مجموعے کی نشاندہی کرتے ہیں،جوانفردی ترقی اور اس کے معاشرے میں انضمام کے مقصد کیلئے ماضی کے تجربے اور فکری ورثہ کو اگلی نسل تک پہنچانے کی طرف مبنی تھا۔قصہ مختصر آج کے بیشترممالک میں کل وقتی تعلیم ، خواہ اسکول میں یاکوئی اور ، ایک خاص عمر تک کے بچوں کیلئے لازم ہے ، اس وجہ سے آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ لازمی تعلیم کے پھیلاؤ، یونیسکو نے حساب لگایا ہے کہ اگلے 30سالوں میں زیادہ تر لوگ تاریخ کی تمام تاریخ کے مقابلے میں با ضابطہ تعلیم حاصل کریں گے۔

انسان کی پہلی تعلیمی درسگاہ اس کی والدہ ، اس کا والد اور اس کا خاندان ہوتا ہے، جیسا ماحول ہوتا ہے ویسی ہی اس کی صحبت ہوتی ہے، پھر وہ پرائمری تا ماسٹر یا پی ایچ ڈی تک تعلیم حاصل کرتا ہے تاکہ اسے اچھا روزگار ملے، میرے خیال میں پڑھائی کا مقصد صرف نوکری کا حصول نہیں ہونا چاہیے ، اچھے کاروبار کیلئے بھی تعلیم حاصل کریں، تمیز ، اخلاق، رویہ اور اپنے آپ کو انسان بنانے کیلئے تعلیم حاصل کریں، دنیا میں رہتے ہوئے ہر انسان کو خاص طور پر مسلمانوں کو نہ صرف دنیاوی تعلیم حاصل کرنی چاہیے بلکہ قرآن پاک کی تعلیم بھی ضرور حاصل کرنی چاہیے تاکہ ان کی آنے والے نسل ان سے متاثر ہو کر دین و دنیا دونوں تعلیموں کو حاصل کریں، انسان کو ہمیشہ دنیا کے ساتھ دینی تعلیم پہ بھی ضرور توجہ دینی چاہیے تاکہ چند دن کی زندگی کے بعد اس کی اگلی زندگی بھی اچھی گزرے۔

اللہ تعالیٰ ہم سبھ کو دین و دنیا کی تعلیم حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :