بغض معاویہ و حب علی

منگل 6 جولائی 2021

Javed Malik

جاوید ملک

ہم کو معلوم ہی کب تھا ایسے زمانے بھی ہیں آنے والے
سوتے رہ جائیں گے سوتوں کو جگانے والے
آج جب نماز فجر سے فارغ ہو کر خود ہی اپنے اور چوکیدار کے لیے چائے بنائی- پھر سب سے پہلے حامد میر صاحب کا رونا دھونا پڑھا اور بہت خوش ہوئی کیونکہ نواز شریف سے لیکر  عمران خان تک سارے کھلاڑی حامد میر کے تیار کئے ہوئے ہیں اور یہ سب کچھ تو ان سب شیروں کو ان کی خالہ ہی نے سکھایا تھا- اس میں پریشانی کی کیا بات ہے۔

ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ آپ کو تو خوش ہونا چاہیے آپ کے شاگرد آپ کی دی ہوئی ٹریننگ اور بتائے ہوئے طریقے کتنی خوبصورتی سے استعمال کر رہے ہیں۔ ایک اور افسوس میر صاحب کو یہ ہے کہ صحافیوں پر حملوں میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے تو میر صاحب ہاتھ کے انگوٹھے کو انگلیوں سے الگ کر کے دیکھیں پھر آپ انگلیوں سے کوئی کام لیں آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اتفاق میں کتنی برکت ہے، شائد صحافیوں کو معلوم نہیں،حملوں کو اخلاقی جواز فراہم کرانے والے بھی صحافی ہیں- رہا پاکستان کو چین بنانا تو نا ممکن، بہت کام کرنا پڑتا ہے- جو کچھ ہمارے نمائندے اسمبلیوں میں کر رہے  پاکستان کو افغانستان بنایا جا سکتا ہے۔

(جاری ہے)


استاد صحافت جناب نصرت جاوید صاحب آپ ان ترجمان بیچاروں کی قسمت دیکھیں۔ اتنی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کو عارضی ملازمت ملی ہے اور ان کے زمہ جھوٹ کو سچ ثابت کرنا ہے۔ حالانکہ یہ لوگ بے شک پوری دلیل کے ساتھ بات کرتے ہیں اور ان کو یقین بھی ہے کہ عمران خان حکومت درست اقدام کر رہی ہے مگر جن کے لئے حکومت کام کر رہی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ترجمان جھوٹ بول رہے ہیں(صحافی تقسیم ہیں) -  جاوید چوہدری صاحب بھی 92 سے خدمت کے اعلیٰ معیار قائم کر رہے ہیں۔

چوہدری صاحب نے اپنے کالم خدا کے لہجے میں" بڑے اہم نقطے اٹھائے ہیں۔اگر مصطفیٰ قریشی 81 کے ہو گئے ہیں تو کوئی 71 کا بھی ہو گیا ہے۔ عقل کے لیئے اگر سال گننے ضروری ہوتے تو پھر 40 کا ہندسہ سب سے معتبر ہے ورنہ ذلت اور رسوائی کے لیے سال بڑھاتے جاؤ۔(بکاؤ صحافت کسی بھی درجے کی ہو، اس سے اجتناب ضروری ہے)- بکاؤ اور گمراہ، سواتیوں، عمر ایوبوں اور ان کی طرح والوں کی منڈی لگنے والی ہے۔

حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی۔
جناب الطاف حسن قریشی پاکستانی صحافت کا انسائیکلوپیڈیا، اللہ تعالیٰ صحت کے ساتھ ان کی عمر دراز کرے۔
برائے نام بھی جن کو وفا نہیں آتی
وہ ہر ایک کو اپنی وفا کی مثال دیتے ہیں
 لیتے ہیں ہر ایک جیب کی تلاشی
 خیرات میں یہ رزق حلال دیتے ہیں
قریشی صاحب سے التماس ہے اردو ڈائجسٹ کے پلیٹ فارم سے کسی مجلس مذاکرہ کا بندوبست کریں تاکہ خلق خدا کو معلوم ہو جائے کہ یہ لوگ ہمیں بیچ کر اپنے محلوں کو اور کتنا خوبصورت بنا ئیں گے۔

پاکستان کے اکیس کروڑ نوے لاکھ لوگوں کو سکوک لفظ کا مطلب بھی معلوم نہیں اور نہ معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ پبلک کے مسائل دوسرے ہیں۔ کراچی میں ایک لاکھ لوگوں کے بنے بنائے گھر کراچی کے رہنے والے صدر کی موجودگی میں، کراچی کے رہائیشی چیف جسٹس کے حکم کی آڑ میں گرا دئے گئے ہیں۔ کل پرسوں بارش شروع ہونے والی ہے۔ وہ سکوک کی فکر کریں یا سر چھپانے کی۔
الفاظ کا گورکھ دھندہ اور کرائے کی حکومت چلانے والے تمام افراد کی جیبوں میں کافر ملکوں کے ویزے ہیں۔ جب ضرورت ہو گی بھاگ جائیں گے۔خالد احمد کے خوبصورت شعر کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں۔
 بے جہت فکر کے ہاتھوں کمان کیوں دی
ہدف تو تھا تیار،تیر تو چل جانا تھا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :