اس کے ساتھ میری پہلی ملاقات جنوبی کوریا کے شہر سیول کی جامع مسجد اتی وان میں ہوئی تھی-غالبا یہ 1997 کے ابتدائی ایام تھےاورجمعہ کا دن تھا-میں ہر جمعہ کواسی مسجد میں جایا کرتا تھا-جمعہ کی نماز ادا کرنے کے بعد تمام غیر ملکی باہر کھڑے ہوتےاور ایک دوسرے سے حال احوال پوچھتے تھے- اسی دوران میرا ان سے تعارف ہوا-جو بعد میں دوستی میں بدل گیا-ہم دونوں ہم عمر تھے-میں وہاں چند سال گزارنے کے بعد اپنے وطن واپس لوٹ آیا مگر وہ اپنے خوابوں کی تکمیل کیلئے وہیں موجود رہا-جب حامد کرزئی کی حکومت آئی اور وہاں حالات کچھ بہتر ہوئے تواس نے بھی واپسی کا ارادہ کیا-جنوبی کوریا میں کافی سال گزارنے کے بعد وطن واپس لوٹا اپنے ماں باپ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا- افغانستان پہنچنے کے کچھ دنوں کے بعد اس کی شادی کر دی گئی-روایتی انداز میں شادی ہوئی-مجھے بھی دعوت دی مگر میں کمزور دل واقع ہوا- افغانستان کا سفر مشکل لگا- جنوبی کوریا سے کافی پیسے کما کے لایا تھا- اپنا چھوٹا سا مکان بنایا والدین کو حج کرایا اور اپنا ایک چھوٹا سا کاروبار بنا لیا-وہ اپنے والدین کے بغیر پردیس نہیں جانا چاہتا تھا-اس کو اپنی مٹی سے بہت پیار تھا-وہ ہر نماز میں اپنے وطن کےلیے امن کی دعائیں کرتا-وہ خوشحال زندگی گزارنے لگا-اللہ تعالی نے اس کو وفادار بیوی اور دو بچے دیے- اس کے لئے افغانستان میں رہنا اور امن کا قیام سب کچھ تھا-وہ بہت خوشحال تھا- لیکن اللہ تعالی کو کچھ اور ہی منظور تھا- افغانستان پر طالبان نے بہت تیزی کے ساتھ قبضہ کیا-اس کو کچھ بھی سنبھلنے کا موقع نہ ملا-وہ طالبان کے پہلے دور حکومت کی سختیوں سے خوف زدہ تھا- اس کو بہت ڈر لگنے لگا-اس نے فیصلہ کیا والدین بوڑھے ہیں سفر کی سختی برداشت نہیں کر سکیں گے- اس نے اپنی بیوی اور دو چھوٹے چھوٹے بچوں کو ساتھ لیا اورکابل ایئر پورٹ کی طرف چل پڑا- ہزاروں کی تعداد میں لوگ رواں دواں تھے- امریکی اور اتحادی افواج نے اعلان کیا جو افغانی ملک چھوڑنا چاہتے ہیں-ان کو افغانستان سے نکالا جائے گا-اور ترقی یافتہ ممالک میں بھیجا جائے گا -اس اعلان کو سننے کے بعد افغانستان جیسےجنگ زدہ ملک میں کون رہنا پسند کرے گا-پھر کیا ہوا لوگ جوق در جوق بے سروسامانی کی حالت میں گھروں سے نکل پڑے-ہزاروں کی تعداد میں لوگ کابل ایئرپورٹ کے باہر موجود تھے- یہاں تک کہ پاکستان سے بھی افغان مہاجرین یہاں پہنچ چکے تھے- اکثر مہاجرین کے پاکستان میں بڑے اچھے کاروبار تھے-بس وہ امریکہ اور یورپ جانا چاہتے تھے- متعدد بار طالبان ترجمانوں نے اعلان کیا اپنے وطن کو مت چھوڑیں-اسی وطن کو مل جل کر اپنے پاؤں پر کھڑا کریں گے-لیکن کسی نے ان کی بات نہ سنی- ٹی وی پر اپنی آنکھوں سے وہ مناظر دیکھے- کس طریقے سے افغانی اپنا وطن چھوڑنے کے لئے سر توڑ کوشش کر رہے تھے-دیوار پھلانگ رہے تھے- طیاروں کی دم پر سوار ہونے کی کوشش کی اور جان کی بازی ہار گئے-کچھ لوگ طالبان کا کابل پر قبضہ خوش قسمتی کی علامت سمجھتے ہیں- لیکن یہ وہ لوگ ہیں جو یورپ پہنچ چکے ہیں- میں نے ایک خاندان کی تصویر دیکھی- میاں بیوی اور دو بچے بیلجیئم کے فوجی اڈے پر اترنے کے بعد ان کی بیٹی دونوں بازو کھول کر مسرت کا اظہار کر رہی ہے- میرا دوست بھی اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ کابل ایئر پورٹ پر موجود تھا-اس کو وہاں انتظار کرتے پانچ دن ہو چکے تھے- یہ پانچ دن اس نے کیسے گزارے- ہر روز امید پیدا ہوتی اور ہر روز ٹوٹ جاتی- میاں بیوی ایک دوسرے کے کندھے پر سر رکھ کر سونے کی کوشش کرتے-کبھی سر کے نیچےاپنے جوتوں کا تکیہ بناتے- بچوں کو دیکھتے اور تصور کرتے ان کا مستقبل روشن ہوگا-ہم یہ تکلیفیں ان کے لئے برداشت کر رہے ہیں-جو طیارہ کابل ایئر پورٹ پراترتا ہزاروں افغانیوں کے چہرے پھول کی طرح کھل اٹھتے-اسی دوران امریکی افواج نے اعلان کیا-کابل ایئر پورٹ پر داعش کے دہشت گرد حملوں کاخطرہ ہے- اس لیے تمام لوگ یہاں سے چلے جائیں- مگر کوئی وہاں سے جانے کو تیار نہ تھا-سب ایک قدم اٹھاتے اور پھررک جاتے- وہ سمجھتے اگر ہم کابل ایئرپورٹ سے چلے گئے- تو ہم اپنے خوابوں سے دور چلے جائیں گے- بچوں کا مستقبل تاریک ہو جائے گا-ان کا جسم ان کا ساتھ نہیں دے رہا تھا-وہ کابل ایئرپورٹ کی حدود سے باہر نہیں جانا چاہتے تھے-بڑی مشکلوں کے بعد اس حدود میں داخل ہوئے تھے-اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا- خوفناک دھماکہ ہوا سب کچھ فنا ہو گیا- بڑے بڑے سپنےکرچی کرچی ہو گئے-چھوٹے چھوٹے بچے تنکوں کی طرح بکھر گئے- خواب ریزہ ریزہ ہو گئے-مائیں اپنے بچوں کو تلاش کرتی رہیں-بچے اپنے والدین کا سہاراڈھونڈتے رہے-کسی کا ہاتھ اور کسی کا پاؤں غائب- عجب مناظر تھے-قیامت صغریٰ کا منظر تھا-عجب شام غریباں تھی-سب کچھ ساتھ لے کر چلی گئی-میرے دوست تم کدھرچلے گئے- تم نے میری ایک نہ مانی-تم نےاپنے خوابوں کے حصول کے لیے سب کچھ قربان کردیا-تم نے بہت بڑی قیمت ادا کی -تم خود تو چلے گئے-یہ شام غریباں اور قیامت صغریٰ مجھے کبھی نہیں بھولے گی-میرے دوست مجھے کبھی نہیں بھولے گی-
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔