پاکستان کا طرز حکومت

ہفتہ 25 ستمبر 2021

Javed Malik

جاوید ملک

اس میں کوئی دو آرا نہیں پاکستان میں لولی لنگڑی جمہوریت چل رہی ہے۔لیکن یہ بھی باعث غنیمت ہی سمجھیں جس ملک میں تیس سال سے زائد فوجی حکومت رہی ہو۔اس ملک میں ایسی جمہوریت ہی مل سکتی ہے۔جمہوریت کی خاص تعریف عوام کی حکومت عوام کے ووٹوں سے منتخب اور عوام کے لئے۔لیکن پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔اس میں ہمارے جمہوری نظام سے زیادہ ہماری عوام کا بھی قصور ہے۔

کیونکہ عوام کو اپنے بنیادی حقوق کا علم نہیں ہے۔جب بھی پاکستان میں انتخابات ہوتے ہیں ہر حلقے میں بہت سے امیدوار سامنے آتے ہیں۔لیکن ہماری نظر صرف پی ایم ایل این پی پی پی اور پی ٹی آئی پر پڑتی ہے۔اگر غور سے دیکھیں تو اسی حلقے میں ایک سے زیادہ امیدوار ایسے بھی ہونگے جنہوں نے بڑی مشکل سے الیکشن لڑنے کی شرائط پوری کی ہونگی۔

(جاری ہے)

جس میں سب سے بڑی شرط وہ فیس ہے۔

جو کسی بھی امیدوار کو الیکشن لڑنے کے لیے بطور ضمانت جمع کرانی ہوتی ہے اور اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطلوبہ  شرائط کے مطابق اگر کوئی امیدوار اتنے ووٹ حاصل نہیں کرتا اس کی ضمانت ضبط ہو جاتی ہے اور جن امیدواروں کی میں بات کر رہا ہوں ان کو گھر سے نکلتے ہوئے پتہ ہوتا ہے ان کی ضمانت ضبط ہو جائے گی۔کیوں کہ جس عوام کی وہ ترجمانی کرنے جا رہے ہیں اس عوام کو ایسا پیدل سائیکل رکشا یا موٹر سائیکل والا نمائندہ نہیں چاہیے۔

ان کو وہ نمائندہ چاہیے جس کے پاس ایک سے زیادہ لینڈکروزر ہو۔باڈی گارڈ ہوں۔گردن میں موٹا سریا ہو۔اشتہاروں پر پے داغ ماضی اور اعلیٰ کردار لکھا ہو۔جو الیکشن لڑنے پر کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کر سکتا ہو۔ پاکستان کی تینوں بڑی جماعتوں کا ٹکٹ اس کی جیب میں ہو۔جو عوام کو بھیڑ بکری سے زیادہ اہمیت نہ دیتا ہو۔پاکستان کے طرز حکومت میں سب سے بڑا کردار ہماری عوام کا ہے۔

ووٹ کی اصل طاقت عوام کے پاس ہوتی ہے۔مگر ہماری عوام گلیوں نالیوں سرکاری ملازمین کے تبادلوں اور تھانے کچہری کی خاطر ووٹ ڈالتے ہیں۔جب تک ہم ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دیں گے۔تو پاکستان میں حقیقی تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ دنیا بھر میں جن قوموں نے ترقی کی انہوں نے ذاتی مفاد کوپس پشت ڈالا اور قومی مفاد کو سامنے رکھ کر بڑے فیصلے کیے۔

ارکان اسمبلی کا کام قانون سازی کرنا ہوتا ہے۔ان کا کام اداروں میں مداخلت کرنا نہیں ہوتا۔لیکن ہمارے ملک میں کوئی بھی شخص اپنی ذمہ داری احسن انداز میں پوری نہیں کر رہا۔باقی سارے کام کر رہے ہیں۔لیکن جس کام کے لیے ان کو ذمہ داری دی گئی وہ کام نہیں ہو پا رہا۔ ارکان اسمبلی کا کام گلیاں نالیاں جھوٹے پرچے یا ناجائز تبادلے کروانا نہیں ہوتا۔

ان کا کام بہت بڑا ہوتا ہےانہوں نے مل بیٹھ کر ملک کے لیے قانون سازی کرنا ہوتی ہے۔لیکن جو ارکان اسمبلی کروڑوں روپے خرچ کرکے اسمبلی تک پہنچتا ہےتو وہ اپنی سرمایہ کاری کو ڈبل کیسے کرے گا۔ اس کے پاس صرف ترقیاتی کاموں کا راستہ رہ جاتا ہے۔ جہاں سے وہ مال بناتا ہے۔اس لیے اگر آپ غور کریں تو کسی بھی جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات خوشی سے نہیں کرائے موجودہ حکومت کو ہی دیکھ لیجئے۔

معزز عدالت کب سے کہہ رہی ہے بلدیاتی انتخابات کروائیں لیکن مختلف حیلے بہانوں سے اس کو التوا کیا جا رہا ہے۔ گلی محلوں کے کام گلی محلوں کے نمائندوں کے حوالےکیے جائیں تو ہی بہتر ہوتا ہے۔لیکن پاکستان میں اگر بلدیاتی انتخابات کروابھی دیے جائیں تو ان کو اختیارات نہیں دیئے جاتے۔پھر بھی اسی حلقے کا ایم این اے ایم پی اے اپنی ٹانگ درمیان میں ہی رکھتا ہے۔

پاکستان کے انتخابی عمل میں کافی تبدیلیوں کی ضرورت ہے لیکن تبدیلیاں کرنے والے اپنے مفادات سے ٹکراؤ پسند نہیں کرتے۔وہ اپنے مفاد کی قانون سازی تو منٹوں میں کرتے ہیں لیکن جہاں پر عوامی مفاد کا مسئلہ ہو وہاں پر کورم پورا نہیں ہوتا۔آپ نے کبھی قومی اسمبلی کاکوئی اجلاس مہنگائی پر نہیں دیکھا ہو گا کیونکہ یہ عوام کا مسئلہ ہے اور عوام کی ترجمانی بدقسمتی سے خواص کے ذمہ لگا دی گئی ہے۔

جن کو یہ بھی نہیں پتا انڈے کلو کے حساب سے نہیں ملتے اور ٹماٹر درجن کے حساب سے نہیں ملتے۔پاکستان کے اندر غریب لوگ زیادہ بستے ہیں لیکن اسمبلی میں ان کی ترجمانی نہیں ہے۔اگر تو ایسی قانون سازی کی جائے پاکستان کی قومی اسمبلی صوبائی اسمبلی اور سینٹ کا انتخاب صرف وہ لڑ سکے گاجس کا کوئی بینک بیلنس نہ ہو اور نہ ہی کوئی ذاتی اثاثہ ہو۔ تو پھر دیکھئے گا پاکستان کے مسائل کس طرح حل ہونگے۔

کیونکہ ایوان میں خالص عوامی نمائندگی ہوگی لیکن ایسا ہونے والا نہیں ہے۔پاکستان میں جنرل ریٹائرڈ مشرف نے الیکشن لڑنے کے لیے بی اے کی ڈگری کی شرط رکھی تھی تو اس کے نتائج آپ کے سامنےموجود ہیں۔بلوچستان کے سابق وزیر اعلی نواب اسلم رئیسانی نے کہا ڈگری ڈگری ہوتی ہےجعلی ہو یااصلی ہو۔ اور جس معاشرے میں خواص کے پیپر مزدور کا بیٹا دے رہا ہو۔

وہاں پر تعلیم کا کیا معیارہوگا اور ڈگری کی کیا اہمیت ہوگی۔پاکستان میں ایسے لوگ تھیسز لکھ رہے ہیں جو اس کے مفہوم سے بھی واقف نہیں۔ہمارے ملک میں بدقسمتی سے ڈگریاں آلو پیاز کی طرح بکتی ہیں۔کسی بھی ڈگری کا حصول مشکل نہیں ہے۔پاکستان کے طرز حکومت میں پروٹوکول اور وی آئی پی کلچر مکمل طور پر ختم کرنا ہوگا۔ لیکن ایسا صرف سوچا جا سکتا ہے۔

اس پر عمل کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ہمارے ملک میں ایک معمولی کونسلر اپنے آپ کو نہ جانے کیاسمجھ لیتا ہے۔پاکستان کے طرز حکومت میں کرپشن کو خاص اہمیت حاصل ہےکیونکہ کرپشن کے بغیر مال بنایا نہیں جا سکتا۔اس لئے لوگ بڑی پارٹیوں کا چناؤ کرتے ہیں پہلے ان پر سرمایہ کاری کرتے ہیں پھر ٹکٹ حاصل کرتے ہیں۔اور منتخب ہو کر بہتی گنگا میں جی بھر کر اپنے خسارے پورے کرتے ہیں۔

پاکستان کے طرز حکومت میں مالیاتی اداروں کا منفی کردار بہت اہم ہے۔مالیاتی ادارےجن کو عرف عام میں بینک کہا جاتا ہے۔وہ کسی غریب آدمی کو پچاس ہزار روپے قرض دینے کے لئے ایسی ایسی شرائط رکھتے ہیں  جو پوری کرنا ناممکن ہوتا ہے۔لیکن خواص کے لیے 50 کروڑ دینا ان کے لیے اعزاز سے کم نہیں ہوتا۔پاکستان کے طرز حکومت میں بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے اپنے من پسند لوگوں کو دیے جاتے ہیں اور یہی منصوبے بعد میں سکینڈل کی زد میں آجاتے ہیں اور اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔

لیکن پاکستان میں ہوتا کچھ بھی نہیں۔ پاکستان میں جو جتنا بڑا ڈاکو ہے وہ اتنا بڑا صاحب عزت ہے۔اس کو ادارے بھی عزت دیں گے اور عوام بھی واہ واہ کریں گے۔بڑے ڈاکو کو ہتھکڑی نہیں لگائی جاسکتی اس کے لیے خاص گاڑی کا اہتمام کیا جاتا ہےاور جیل میں بھی بی کلاس دی جاتی ہے۔تمام بنیادی سہولیات جیل میں موجود ہوتی ہیں۔اس کو یہ تمام سہولیات اس لئے فراہم کی جاتی ہیں کیونکہ اس نے غریب عوام کے کروڑوں روپےہڑپ کیے ہوتے ہیں۔

پاکستان کے طرز حکومت میں سب کچھ موجود ہےاگر کوئی کمی ہے تو عوامی مفادات کے نفاذ کی۔جب تک عوام کو جمہوریت کا صحیح مطلب سمجھ نہیں آئے گا اور اپنے حقوق کو حاصل کرنے یا پھر چھین لینے کاجذبہ پیدا نہیں ہوگا۔ اس وقت تک یہی فرسودہ جمہوری نظام اور طرز حکومت عوام برداشت کرتے رہیں گے۔اپنے اپنے حلقوں میں انہیں نام نہاد نمائندوں کو پروٹوکول دیتے رہیں گے۔ان پر پھولوں کی پتیاں پھینکتے رہیں گے۔ان کی تعریفیں کرتے رہیں گے۔ان کادفاع کرتے رہیں گے۔دعوتیں کرتے رہیں گے۔ان کے ساتھ سیلفی بنا کر اس کا تعویذ بنا کر گلے میں لٹکا کر اعزاز سمجھیں گے۔پاکستان کا طرز حکومت کیسے بدلے گا۔ذرا سوچئے۔ پاکستان کا طرز حکومت غریب عوام کے لیے کیسے بدلے گا جب تک ہم خود نہیں بدلتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :