قوموں کے عروج و زوال میں تعلیم اور ترقی کا کردار

بدھ 26 مئی 2021

Javeria Aslam

جویریہ اسلم

انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ قوموں کے عروج و زوال میں تعلیم اور ترقی کا باہمی رشتہ  بے حد اہم  ہے- عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان فرق دراصل علم کا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اگر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونا ہے تو ہمیں تعلیم کی مد میں بجٹ میں خاطر خواہ اضافے اور توجہ کی ضرورت ہے تاکہ تعلیمی اداروں کے کردار کو موثر بنایا جا سکے- دوسرے الفاظ میں ترقی کی سیڑھی پر پہلا قدم رکھنے  کیلئے معیاری تعلیم کا ساتھ انتہائی اہم ہے-
پاکستانی قوم کے پاس نام نہاد لیڈر بہت ہیں مگر حقیقی  لیڈرشپ کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے- جن افراد میں لیڈرشپ کی کوئی خصوصیت اور صفت نہیں پائی جاتی وہ بھی  لیڈر بنے ہوئے ہیں- جس کی وجہ سے آج ہم ہر سطح پر انتشار کا شکار ہیں- لسانی ، مذہبی، قومی اور علاقائی تعصب ہمارا مقدر بن چکا ہے- عوام ظلم وستم کی چکی میں پس رہی ہے- جھوٹے ،فریب کار اور دھوکہ دینے والوں کے بنے ہوئے جالوں میں پھنس گئ ہے اور خیرو شر ،نفع و نقصان کی پہچان سے عاری ہو چکی ہے۔

(جاری ہے)

ذاتی مفادات کو اجتماعی مفادات پر ترجیح دینے والے ایوانوں میں براجمان ہیں- اللہ پاک نے پاکستان کو بے شمار قدرتی وسائل سے نوازا ہے مگر اس کے باوجود بھی پاکستانیوں کی فی کس آمدنی بہت کم ہے۔ ہماری بے بسی کا مذاق اُڑایا جاتا ہے- ہماری بے حسی پر دنیا ہنستی ہے کبھی ہمیں بزدل جان کر فساد پر اکسایا جاتا ہے، کبھی ہمارے عقائد میں دراڑیں اور شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی ان ہی عقائد کو مسلمہ جان کر اس کے دفاع کے لیے مذہبی مخالف لوگ تیار کیے جاتے ہیں  اور  ہمیں آپس میں لڑائے اور اُلجھائے رکھتے ہیں- ہمیں ایکدوسرے سے مخلص ہونے کی ضرورت ہے۔

اجتماعی استحکام،یگانگت ،یکجہتی اور ترقی کے لیے ہمیں تمام انفرادی مفادات کو قومی اور ملکی مفادات کے تحت لانے کی ضرورت ہے- ہمیں علاقائی ،ذاتی اور نسلی تعصبات اور نفرتوں کو خیر باد کہنے کی ضرورت ہے- اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم تعلیم یافتہ ہوں گے، اپنے حقوق سے واقف ہوں گے، ہمارے وسائل ہم پر خرچ ہوں گے اور کوئی ہمارا استحصال نہیں کر سکے گا- اور اسی شعور کے کارفرما ہونے سے ایک حقیقی ،با کردار ،صالح ،دلیر ،نڈر اور سچی لیڈر شپ بھی سامنے آئے گی  جو ہماری اُمنگوں کی ترجمان ہو گی اور  ہمارے دلوں کی آواز بنے گی۔


اس خواب کی تعبیر تعلیم کے بغیر ممکن نہیں جن ممالک نے تعلیم پر توجہ دی ہے بجٹ میں تعلیم کیلئے خطیر رقم مختص کی اُن ممالک نے ترقی کی-بنگلہ دیشن ، سری لنکا اور نیپال بھی شرح خواندگی میں پاکستان سے آگے نکل چکے ہیں جو نہ صرف حکمرانوں کیلئے بلکہ پوری قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہے _قیام پاکستان کے 73 سال گزرنے کے باوجود ملک میں یکساں نظام تعلیم رائج نہیں کیاجاسکا ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے مطابق قومی زبان اُردو کو تمام سرکاری اداروں میں سرکاری زبان کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا جانا تھا لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں کیا گیا- ترقی یافتہ ممالک نے اپنی مادری زبان میں ترقی کی ہے ہمیں اُن ممالک کی طرح اپنی قومی زبان کو رائج کرنا چاہیے تھا لیکن اسکے برعکس انگریزی زبان کو ترجیح دی گئی جس کی وجہ سے پاکستان میں ناخواندگی کی شرح بڑھ گئی موجودہ حکومت نے ہائیر ایجوکیشن کے بجٹ میں اضافہ کرنے کی بجائے 15 ارب روپے کی کٹوتی کر دی  جس کی وجہ سے یونیورسٹیاں مالی بحران کاشکار ہو گئیں- ملازمین اور دیگر اخراجات کیلئے جامعات قرضے لے رہی ہیں، فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا گیا- تشویش ناک بات یہ ہے کہ حکمرانوں کی ناقص معاشی پالسیوں کی وجہ سے ملک کی طرح اب جامعات بھی قرضوں پر چل رہی ہیں- جو تعلیم سکولوں میں دی جا رہی ہے اس کا معیار کیا ہے حالیہ کئی تحقیقاتی رپورٹس میں یہ بات واضح طور پر سامنے آئی ہے کہ بچوں کی اکثریت کا علمی معیار اس درجے سے کم ہے جس میں وہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

کیونکہ ہمارا تعلیمی نظام معاشرے کی ضروریات اور عملی زندگی کے چیلنجز سے مطابقت نہیں رکھتا ہے- اور نہ ہی  بچوں کو اکیسویں صدی کے چیلنجز کیلئے تیار کر رہا ہے - تعلیمی اداروں کے نصاب میں اکیسویں صدی میں کام آنے والی مہارتوں مثلاً کریٹیکل تھنکنگ‘ کمیونیکیشن‘ Creativity اور Collaboration شامل نہیں ہیں- ہمارے سکولوں کی اکثریت طالبِ علموں میں سوچنے اور تجویز کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں کر رہی- اس کی سب سے بڑی وجہ وہ فرسودہ نظام ہے جس میں تخلیقی سوچ کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ طالبِ علم کے سوالات اور اس کی سوچ پر قدغن لگا دی جاتی ہے جس میں اگر طالبِ علم کسی سوال کے جواب میں اپنی سوچ کا استعمال کرے تو اس کے نمبر کاٹ لیے جاتے ہیں۔

یوں طالب علموں کو شروع ہی سے محض تقلید اور مکھی پر مکھی مارنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام یادداشت کا امتحان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اساتذہ اور طلبا کی پوری کوشش ہوتی ہے سوالات کے جوابات یاد کر لیے جائیں تاکہ امتحان میں اچھے گریڈ کا حصول یقینی بنایا جائے-
 2010ء میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے تعلیم صوبوں کے سپرد کر دی گئی- یہ ایک اہم فیصلہ تھا جو مرکز اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی کشمکش کی نذر ہو گیا۔

آئین میں ایک اہم آرٹیکل 25-A کا اضافہ کیا گیا جس کے مطابق ریاست سولہ سال تک کے عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنے کی ذمہ دار ہو گی- یہ ایک خوش آئند فیصلہ تھا لیکن اس کے عملی نفاذ کیلئے جن اقدامات کی ضرورت تھی وہ نہیں کیے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کا نمبر ڈویلپمنٹ انڈیکس میں بہت بہت نیچے آ گیا ہے- یو این ڈی پی کی 2019ء کی رپورٹ میں 189 ممالک کی ڈویلپمنٹ انڈیکس کی فہرست دی گئی ہے۔

اس فہرست میں پاکستان 152ویں نمبر پر ہے۔ یہ صورتحال پالیسی سازوں کیلئے تشویش کا باعث ہونی چاہیے۔ اس ساری صورتحال کے تجزیہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک حکومتیں تعلیم کے حوالے سے بلند بانگ دعوے تو کرتی رہیں لیکن ٹھوس عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔ خوش نما پالیسیاں بنانے والوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ اصل چیلنج ان پالیسیوں کا نفاذ ہے اور اس کیلئے ضروری ہے تعلیم کے حوالے سے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔

جنوبی ایشیا کے ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلیمی بجٹ کا مقابلہ کیا جائے تو یہ انتہائی کم ہے- طاقت کا جدید تصور روایتی اسلحہ نہیں بلکہ وہ تعلیمی مہارتیں ہیں جو کسی قوم کے افراد میں پائی جاتی ہیں۔ آنیوالا بجٹ یہ طے کرنے میں مدد دے گا کہ کیا ہم تعلیم کو ملکی ترقی کا اہم ہدف سمجھتے ہیں اور ہم بطورِ قوم پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرنے میں کتنے سنجیدہ ہیں-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :