
قوموں کے عروج و زوال میں تعلیم اور ترقی کا کردار
بدھ 26 مئی 2021

جویریہ اسلم
پاکستانی قوم کے پاس نام نہاد لیڈر بہت ہیں مگر حقیقی لیڈرشپ کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے- جن افراد میں لیڈرشپ کی کوئی خصوصیت اور صفت نہیں پائی جاتی وہ بھی لیڈر بنے ہوئے ہیں- جس کی وجہ سے آج ہم ہر سطح پر انتشار کا شکار ہیں- لسانی ، مذہبی، قومی اور علاقائی تعصب ہمارا مقدر بن چکا ہے- عوام ظلم وستم کی چکی میں پس رہی ہے- جھوٹے ،فریب کار اور دھوکہ دینے والوں کے بنے ہوئے جالوں میں پھنس گئ ہے اور خیرو شر ،نفع و نقصان کی پہچان سے عاری ہو چکی ہے۔
(جاری ہے)
اس خواب کی تعبیر تعلیم کے بغیر ممکن نہیں جن ممالک نے تعلیم پر توجہ دی ہے بجٹ میں تعلیم کیلئے خطیر رقم مختص کی اُن ممالک نے ترقی کی-بنگلہ دیشن ، سری لنکا اور نیپال بھی شرح خواندگی میں پاکستان سے آگے نکل چکے ہیں جو نہ صرف حکمرانوں کیلئے بلکہ پوری قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہے _قیام پاکستان کے 73 سال گزرنے کے باوجود ملک میں یکساں نظام تعلیم رائج نہیں کیاجاسکا ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے مطابق قومی زبان اُردو کو تمام سرکاری اداروں میں سرکاری زبان کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا جانا تھا لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں کیا گیا- ترقی یافتہ ممالک نے اپنی مادری زبان میں ترقی کی ہے ہمیں اُن ممالک کی طرح اپنی قومی زبان کو رائج کرنا چاہیے تھا لیکن اسکے برعکس انگریزی زبان کو ترجیح دی گئی جس کی وجہ سے پاکستان میں ناخواندگی کی شرح بڑھ گئی موجودہ حکومت نے ہائیر ایجوکیشن کے بجٹ میں اضافہ کرنے کی بجائے 15 ارب روپے کی کٹوتی کر دی جس کی وجہ سے یونیورسٹیاں مالی بحران کاشکار ہو گئیں- ملازمین اور دیگر اخراجات کیلئے جامعات قرضے لے رہی ہیں، فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا گیا- تشویش ناک بات یہ ہے کہ حکمرانوں کی ناقص معاشی پالسیوں کی وجہ سے ملک کی طرح اب جامعات بھی قرضوں پر چل رہی ہیں- جو تعلیم سکولوں میں دی جا رہی ہے اس کا معیار کیا ہے حالیہ کئی تحقیقاتی رپورٹس میں یہ بات واضح طور پر سامنے آئی ہے کہ بچوں کی اکثریت کا علمی معیار اس درجے سے کم ہے جس میں وہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ کیونکہ ہمارا تعلیمی نظام معاشرے کی ضروریات اور عملی زندگی کے چیلنجز سے مطابقت نہیں رکھتا ہے- اور نہ ہی بچوں کو اکیسویں صدی کے چیلنجز کیلئے تیار کر رہا ہے - تعلیمی اداروں کے نصاب میں اکیسویں صدی میں کام آنے والی مہارتوں مثلاً کریٹیکل تھنکنگ‘ کمیونیکیشن‘ Creativity اور Collaboration شامل نہیں ہیں- ہمارے سکولوں کی اکثریت طالبِ علموں میں سوچنے اور تجویز کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں کر رہی- اس کی سب سے بڑی وجہ وہ فرسودہ نظام ہے جس میں تخلیقی سوچ کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ طالبِ علم کے سوالات اور اس کی سوچ پر قدغن لگا دی جاتی ہے جس میں اگر طالبِ علم کسی سوال کے جواب میں اپنی سوچ کا استعمال کرے تو اس کے نمبر کاٹ لیے جاتے ہیں۔ یوں طالب علموں کو شروع ہی سے محض تقلید اور مکھی پر مکھی مارنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام یادداشت کا امتحان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اساتذہ اور طلبا کی پوری کوشش ہوتی ہے سوالات کے جوابات یاد کر لیے جائیں تاکہ امتحان میں اچھے گریڈ کا حصول یقینی بنایا جائے-
2010ء میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے تعلیم صوبوں کے سپرد کر دی گئی- یہ ایک اہم فیصلہ تھا جو مرکز اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی کشمکش کی نذر ہو گیا۔ آئین میں ایک اہم آرٹیکل 25-A کا اضافہ کیا گیا جس کے مطابق ریاست سولہ سال تک کے عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنے کی ذمہ دار ہو گی- یہ ایک خوش آئند فیصلہ تھا لیکن اس کے عملی نفاذ کیلئے جن اقدامات کی ضرورت تھی وہ نہیں کیے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کا نمبر ڈویلپمنٹ انڈیکس میں بہت بہت نیچے آ گیا ہے- یو این ڈی پی کی 2019ء کی رپورٹ میں 189 ممالک کی ڈویلپمنٹ انڈیکس کی فہرست دی گئی ہے۔ اس فہرست میں پاکستان 152ویں نمبر پر ہے۔ یہ صورتحال پالیسی سازوں کیلئے تشویش کا باعث ہونی چاہیے۔ اس ساری صورتحال کے تجزیہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک حکومتیں تعلیم کے حوالے سے بلند بانگ دعوے تو کرتی رہیں لیکن ٹھوس عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔ خوش نما پالیسیاں بنانے والوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ اصل چیلنج ان پالیسیوں کا نفاذ ہے اور اس کیلئے ضروری ہے تعلیم کے حوالے سے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔ جنوبی ایشیا کے ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلیمی بجٹ کا مقابلہ کیا جائے تو یہ انتہائی کم ہے- طاقت کا جدید تصور روایتی اسلحہ نہیں بلکہ وہ تعلیمی مہارتیں ہیں جو کسی قوم کے افراد میں پائی جاتی ہیں۔ آنیوالا بجٹ یہ طے کرنے میں مدد دے گا کہ کیا ہم تعلیم کو ملکی ترقی کا اہم ہدف سمجھتے ہیں اور ہم بطورِ قوم پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرنے میں کتنے سنجیدہ ہیں-
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
جویریہ اسلم کے کالمز
-
قومی سلامتی پالیسی کا قوم سے تعلق
منگل 15 فروری 2022
-
سرحد کے اس پار اک کوئل : لتا منگیشکر
منگل 8 فروری 2022
-
میرے بچپن کا جنوری
جمعرات 3 فروری 2022
-
مت پوچھ پری زادوں سے
پیر 31 جنوری 2022
-
راس آیا مجھے اشکوں کو وسیلہ کرنا
بدھ 26 جنوری 2022
-
ڈاکٹر فاسٹس تو زندہ ہے
جمعہ 21 جنوری 2022
-
برفباری مری کے پہاڑوں پر یا ہمارے احساسات پر
منگل 11 جنوری 2022
-
ہم چودھویں صدی کے باسی
منگل 28 دسمبر 2021
جویریہ اسلم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.