پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کیا ہے؟

بدھ 2 ستمبر 2020

Junaid Nawaz Chaudhry

جنید نوازچوہدری (سویڈن)

اگر ہم اپنے ہمسایہ ممالک کی برآمدات کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں تو بہت سے ہوش رُبا انکشافات ہوں گے کہ ُان کی برآمدات میں اتنا بڑا اضافہ کیسے ممکن ہوا ہے اور ہم اِس میدان میں پیچھے کیوں ہیں؟
اسکی کئی وجوہات ہیں مگر اُن سب کو یہاں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ مگر کچھ بنیادی حقائق ہیں جن سے انکار شاید کسی طور بھی ممکن نا ہو اور وہ یہ ہیں کے موجودہ حکومت جس طرح بدلے کی سیاست کو فروغ دینے میں مشغول ہے ُاسکی وجہ سے اصل معاملات پر حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہے۔

مُلک کی معاشی ترقی اور برآمدات کے جو اہداف مقرر کئے گئے تھے اُن کو حاصل نا کر پانے کی وجوہات میں سے چند وجوہات یہ ہیں کہ ، دانشمندانہ طور پر نئے مواقعوں اور چیلنجوں سے نمٹنے کا فقدان، ملکی معاشی پہیے کی بنیاد پر ایک نیا ترقیاتی نمونہ تشکیل دیے جانے کا فقدان، تکنیکی ترقی اور جدت کے ذریعے معاشی نمو کے لئے نئی قوت محرکہ فراہم کئے جانے کا فقدان ،گہری اصلاحات کے ذریعے ترقی کے جوش و جذبے کی حوصلہ افزائی کئے جانے کا فقدان ، مزید اعلیٰ کھلے پن کے تحت بین الاقوامی تعاون اور مسابقت میں اپنی مضبوط قوت کو زیادہ بڑھائے جانے کا فقدان اور باہمی تعاون اور اشتراک کے ذریعے دنیا کی نئی معاشرتی ترقی کو وسعت دیے جانے کا فقدان۔

(جاری ہے)

تکنیکی سہولیات سے فائدہ ُاٹھا کر ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے ذریعے بین الا قوامی منڈیوں تک رسائی کی منصوبہ بندی کا فقدان، وغیرہ، وغیرہ۔ اِس حکومت کو یہ سمجھنا پڑے گا کہ ذہنی کشادگی ہمیشہ ترقی لاتی ہے جبکہ بندش پسماندگی کا باعث بنتی ہے۔
لہٰذہ اِس حکومت کو ذہنی کشادگی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا اور بدلے کی سیاست کو خیرباد کہہ کے بین لاقوامی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے کی ایک موثر حکمتِ عملی اپنانی پڑے گی اور ایک مؤثربرآمدات کی پالیسی بنانی پڑے گی اور دستیاب ڈیجیٹل چینلز کے ذریعہ بین الاقوامی سطح پر اپنی مصنوعات کو فروخت کرنے کے لئے چھوٹے تا درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کی حوصلہ افزائی کرنی پڑے گی اوراُن کو نئی منڈیوں تک رسائی دِلوانے کے لئیے باقاعدہ منصوبہ بندی کرنی پڑے گی۔

اور اُن ممالک میں موجود ہمارے سفارت خانوں کو باقاعدہ ایک ٹارگٹ دینا پڑے گا۔
آئی۔ ٹی کے شعبے کے ساتھ ساتھ لاجسٹک ایجوکیشن کو بھی ایجنڈے میں شامل کرنا پڑے گا۔ جس سے آنے والے وقت میں چھوٹے تا درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کو اپنی مصنوعات کو کم سے کم لاجسٹک لاگت پر برآمد کرنے میں مدد ملے گی۔ اس وقت پاکستان ورلڈ بنک کے لاجسٹک پرفارمنس انڈیکس پہ 160 ممالک میں سے 142ویں نمبر پر ہے۔

اس کی وجوہات ہمارے ملک میں کسٹم کلیئرنس ، ٹریکنگ ، ٹریسنگ اور ٹائم لائنوں میں خراب کارکردگی ہے۔ اس وجہ سے مُلک کی برآمدات پر بہت اثر پڑتا ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ برآمدات میں پاکستان جدید تکنیکی انداز اپنا نہیں پا رہا ہے ۔ جب کہ دنیا میں جدید تکنیکی طریقہ کار کے ذریعے برآمدات عروج پر ہیں اور آج دنیا کی برآمدات کا 50 فیصد حصہ جدید تکنیک کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں حالت ابتر ہے۔ آج کی مسابقتی دنیا میں مارکیٹ کو تیزی سے راغب کرنے کا راز نئی ٹیکنالوجیز کو اپنانا ہے۔
پاکستان کی برآمدی منڈیاں امریکہ ، چین ، برطانیہ ، جرمنی ، افغانستان ہیں اور پاکستان کی ساری توجہ انہیں منڈیوں پر مرکوز ہے، اگرچہ یہ بڑی منڈیاں ہیں ، مگر پاکستان افریقہ ، لاطینی امریکہ ، وسطی افریقی جمہوریہ ، اور روس جیسی زیادہ منافع بخش متحرک منڈیوں سے محروم ہے، لہٰذہ اُن منڈیوں پر بھی توجہ دینے اور اُن تک رسائی کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔


آہستہ آہستہ پاکستان میں ڈیجیٹل مارکیٹنگ کی صنعت ترقی کی منازل طے کررہی ہے ، متعدد مقامی سافٹ ویئر ہاؤس بین الاقوامی منڈیوں میں لیڈ جنریشن فراہم کررہے ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ اُن کی سرپرستی کرے اور مختلف ممالک میں موجود اپنے سفارت خانوں کو یہ ذمہ داری سونپے کہ وہ اُن ممالک کی چیمبر آف کامرسز سے روابط کو مظبوط کریں اور سیمیناروں کا اہتمام کریں جس میں پاکستان سے آئی ٹی کے شعبے سے مختلف وفود کو اُن ممالک کا دورہ کروایا جائے یا اُن ممالک سے مختلف کاروباری وفود کو پاکستان کا دورہ کروایا جائے تاکہ ہمیں اُن جدید طریقوں سے آگاہی ہو اور برآمدات بڑھانے کے لئیے نئے مواقع ملیں۔

یہ وہ راستہ ہے جس کو بھارت نے اپنایا ہے ، جس کی وجہ سے وہاں کی آئی ٹی انڈسٹری میں انقلابی ترقی آئی ہے اور آئی ٹی فری لانسرز اور سوفٹ ویئر ڈویلپمنٹ ہاؤسز اپنے مُلک میں زرِمبادلہ لانے کا ایک بڑا ذریعہ بن رہے ہیں۔ مگر ہم صرف بدلے کی سیاست میں مصروف ہیں اور یہی پاکستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رُکاوٹ ہے!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :