اسلامو فوبیا میں مبتلا فرانس

جمعہ 30 اکتوبر 2020

Junaid Nawaz Chaudhry

جنید نوازچوہدری (سویڈن)

پوری دنیا کے مسلمان اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ مبارکہ میں فرانس کے ایک میگزین چارلی ایبڈو کی طرف سے ایک بار پھر گستاخی کے بعد سراپا احتجاج ہیں اور ان گستاخانہ خاکوں کو فرانس میں ایک ٹیچر کی طرف سے کلاس میں طلبا کو بھی دیکھایا گیا اس ٹیچر کے اس عمل نے مسلمانوں کو مزید اشتعال دلوایا۔ فرانس کے مسلمان شہریوں نے اس گستاخی کے خلاف شدید احتجاج کیا اور مختلف حکومتی اداروں سے اس ٹیچر کے خلاف کاروائی کی استدعا کی مگر کہیں شنوائی نا ہوئی اس پر ایک مسلمان نوجوان نے اپنے طور پر بدلہ لینے کی ٹھانی اور چھریوں کے وار کر کے اس ٹیچر کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

اس کے بعد ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر مغربی میڈیا اور فرانس کے حکمرانوں نے مسلمانوں کو شدت پسند گرداننا شروع کر دیا حالانکہ اس ٹیچر کے خلاف کوئی تادیبی کاروائی کر کے اس واقعہ کو رونما ہونے سے روکا جا سکتا تھا مگر بجائے اس غلطی پر افسوس کرنے کے فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون نے اس گستاخ ٹیچر کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے ایک نئے قانون کو تشکیل دینے کا اعلان کردیا جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو مزید مشتعل کر دیا۔

(جاری ہے)

یہ سب کیوں ہو رہا ہے اور اسکی وجہ کیا ہے آئیے جانتے ہیںآ ج کل کے جدید دور کے جدید سیاسی لٹریچر میں پورے یورپ کو اور خاص طور پر فرانس کو مغرب میں جمہوریت کا گہوارہ ثابت کیا جا رہا ہے اس کا درحقیقت صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ دنیا کی نظروں سے دیگر قوموں کے استعمار پر مبنی فرانس کے ماضی پر پردہ ڈالنا ہے لیکن جمہوریت کا گہوارہ کہلائے جانے والے فرانس میں مسلسل ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جن پر اگر غور کیا جائے تو ہم اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ دیگر قوموں پر ناجائز تسلط اور استعمار کا جذبہ نہ صرف فرانس پر حکم فرما سیاسی نظام سے ختم نہیں ہوا بلکہ موجودہ حکمران بھی اپنی ماضی کی ڈگر پر ہی گامزن ہیں۔

اگر ہم اس پر مزید تحقیق کریں تو یہ دعوی ثابت کرنے کیلئے بہت سے ایسے ثبوت موجود ہیں کہ جن کا انکار کسی طور بھی ممکن نہیں ہے۔ مگر اس وقت موجودہ حالات میں جو چیز فرانسیسی حکمرانوں کی اس خصلت کے ظاہر ہونے کا بنیادی سبب بنی ہے وہ ان حکمرانوں کے اسلاموفوبیا پر مبنی اقدامات ہیں اور ان اقدامات کی وجہ سے فرانس میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے۔

یہاں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر شدید مخالفت اور مذمت کے باوجود فرانسیسی حکمران نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی کے اس سلسلے کا سدباب کیوں نہیں کرتے؟ اس کا ممکنہ جواب یہ ہے کہ حقائق ایک چیز کی طرف خاص طور سے اشارہ کر رہے ہیں اور وہ یہ کہ فرانسیسی حکمران جان بوجھ کر ایسی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں جو مسلمانوں کے خلاف ایک سازش محسوس ہوتی ہے۔

وہ اپنے ملک میں عوام کی جانب سے دین اسلام کی جانب تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحانات اور معاشرے میں اسلامی تعلیمات کے پھیلاؤ سے شدید خوفزدہ ہیں لہذا مغربی حکام خاص طور پر فرانسیسی حکمرانوں کی جانب سے اسلامی مقدسات کی توہین کی حوصلہ افزائی کا ایک مقصد مسلمانوں کو شدت پسندانہ اقدامات پر اکسا کر ایسے اقدامات کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کا چہرہ بدنام کرنا ہے۔

دوسرا مقصد معاشرے میں اسلام کے تیزی سے جاری پھیلاو کو روکنا ہے اور یہ صرف فرانس میں ہی نہیں بلکہ بہت سے اور یورپی ممالک میں ہو رہا ہے کہیں پر قرآن پاک کی بے حرمتی اور کہیں پر آقا علیہ صلوٰة وسلام کی شانِ مبارکہ میں گستاخی کر کے۔ یہ سب کچھ ایک گہری سازش کے تحت ہو رہا ہے اگر ہم غور کریں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ اس وقت کچھ طاقتیں یورپ کے بیشتر ممالک میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور اسلام کے تیزی سے پھیلنے کے سبب خوفزدہ ہیں اور دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں کو اقتدار میں لانے کے لیئے ایسے ہتھکنڈوں کو استعمال کر رہی ہیں کہ جس کا مقصد مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکا کے ایسی صورتِ حال پیدا کرنا ہے کہ جس سے دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں کو اقتدار میں لانے کی راہ ہموار کرنا ہے۔

اس کا ایک بڑا ثبوت فرانسیسی صدر کا یہ بیان کہ ”ان کے ملک میں کہیں بھی کسی کو یہ اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ مذہب کا سہارا لے کر ایک ایسا علیحدہ متوازی معاشرہ بنانے کی کوشش کرے جو فرانس کی اقدار سے متصادم ہو“سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فرانس کی حد تک تو وہ قووتیں اپنے مقصد میں کامیاب ہو رہی ہیں کیونکہ کسی ملک کے صدر کا ایسا بیان معاملے کو مزید بگاڑ کی طرف لے کر جا سکتا ہے اور پھر فسادات کا خطرہ بڑھ سکتا ہے اور پھر نتیجہ وہی نکلے گا جو وہ قوتیں چاہتی ہیں۔

یاد رہے کہ فرانس میں اسلام دوسرا بڑا مذہب ہے، جہاں لگ بھگ 60 لاکھ مسلمان بستے ہیں بیشتر مسلم خاندان پرامن اور اعتدال پسند ہیں حکومت کے مجوزہ قانون پر وہاں مسلم برادری اور راہنماؤں میں خدشات ہیں کہ اس سے ”اسلاموفوبیا“ اور ان کے خلاف تعصب کو مزید ہوا ملے گی اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلمان ممالک کے حکمران اس معاملے پر کیا کردار ادا کرتے ہیں اور اس مسئلے کو اقوامِ متحدہ کے فورم پر اٹھاتے ہیں یا پھر ہمیشہ کی طرح بس بیان بازی سے ہی کام چلاتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :