مودی کی نمرودیت

منگل 27 اگست 2019

Kanwal Zareen

کنول زریں

آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر
برصغیر پاک ہو ہند کے شمال مغرب میں واقع ایک ریاست جسکا کل رقبہ 69547 مربع میل ہے۔ 1947ء کے بعد ریاست جموں و کشمیر دوحصوں میں تقسیم ہو گئی۔ 39102 مربع میل پر مشتمل جس حصے پر بھارت قابض ہے مقبوضہ کشمیر کہلاتا ہے۔

اسکا دارالحکومت سری نگر ہے بقیہ علاقہ آزاد کشمیر کہلاتا ہے جو کہ 25 ہزار مربع میل پر پھیلا ہوا ہے۔اسکا دارالحکومت مظفرآباد ہے۔ ریاست کی کل آبادی لگ بھگ ایک کروڑہے جس میں سے 25 لاکھ آزاد کشمیر میں ہیں۔ ہندو راجاؤں نے تقریباً چار ہزار سال تک اس علاقہ پر حکومت کی 1846ء میں انگریزوں نے ریاست جموں و کشمیر کو 75 لاکھ روپوں کے عوض ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔

(جاری ہے)

80 فی صد کشمیری آبادی مسلمان ہے۔ ہندو راجہ نے بزورِ شمشیر مسلمانوں کو اپنا غلام بنائے رکھا۔ تقسیم ہند کے بعد ہندو مہاراجہ ہری سنگھ نے مسلمانوں کی مرضی کے خلاف 26 اکتوبر 1947 ء کو بھارت کے ساتھ ریاست کے الحاق کا اعلان کر دیا۔ جس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت میں جنگ کا آغاز ہو گیا۔ سلامتی کونسل کی مداخلت پر یکم جنوری1949ء کو جنگ بندی ہو گئی۔

سلامتی کونسل نے 1948ء میں منظور شدہ قراردادوں میں بھارت اور پاکستان کو ستمبر سے افواج نکالنے اور وادی میں رائے شماری کروانے کے لئے کہا۔ بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہرلال نہرو نے رائے شماری کروانے کا وعدہ کیا مگر بعد ازاں اپنے وعدے سے منحرف ہو گیا ْ ۔پاکستان نے بھارت سے آزاد کرائے گئے علاقہ میں آزاد کشمیر ریاست قائم کر دی۔
آج بھی ریاست جموں و کشمیر72 برس سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود بھارت کے ناجائز تسلط میں ہے۔

دنیا ئے عالم سے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں۔ مظلوم و لاچار و بے بس مقبوضہ کشمیری جس حوصلے ، جرات و شجاعت و بہادری سے بھارتی فوجی غنڈوں سے مقابلہ کر رہے ہیں اور جس چٹان حوصلے سے ان کی ظلم و بربریت کو برداشت کر رہے ہیں۔ اسکی نظر دنیائے عالم میں کہیں نہیں ملتی۔ بھارتی بزدل افواج نہتے کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کوکچلنے کے لئے ظلم و جبر کی ایسی داستاں رقم کر رہی ہے جس سے انسانیت بھی گھن کھارہی ہے اور سوال کر رہی ہے کہ اے انساں، انساں ہونے پر نادم ہوں۔


آئے روز پوری وادی میں کسی نہ کسی بہانے سے کرفیو کا نفاذ کر دیا جا تا ہے۔ اور پھر نہتے مظلوم و لاچار کشمیریوں کے خون سے ہولی کھیلی جا تی ہے۔ بہنوں، بیٹیوں کی عزتیں سرِ بازار تار تار کی جاتی ہیں۔ مہلک سے مہلک ہتھیاروں کا استعمال کر کے بچوں ، بوڑھوں اور جوانوں کو موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے اور کئی اپنی آنکھوں کی بینائی سے ہمیشہ کے لئے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

بھارتی سیکورٹی فورسسز کے اسی انسانیت سوز سلوک کی بدولت کشمیر یوں کے دلوں سے موت کا خوف نکل چکا ہے۔
مو دی جسکو آج کے دور کا فرعون کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ اس نے اس وادی کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔ پچھلے کئی روز سے جاری سخت کر فیو نے کشمیریوں کو گھروں تک رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اقوام عالم سے تمام رابطے ان کے منطقع کر دیے گئے ہیں۔

بچے، بوڑھے اور جوان سب کو نظر بند کر دیا گیا ہے۔ ایک کشمیری پر 40 بھارتی غنڈے ملسط کئے گئے ہیں۔ اب تو راشن ختم ہو گیا۔ بچے دودھ سے بلک رہے ہیں۔۔ بیمار ادویات کے انتظار میں ہیں۔ ان نمرودوں نے صرف اس چیز پر اکتفا نہیں کیا بلکہ بھارت آئین میں مقبوضہ کشمیر کی خصوسی حیثیت ختم کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے اور اسی ضمن میں گو رنر کا عہدہ بھی ختم کر دیا گیا ہے۔

اس سلسلے میں آرٹیکل370 اور35اے کے خاتمے کا صدارتی حکم جاری کیا جا چکا ہے۔ جسکی رو سے اب غیر کشمیر یوں کوجموں و کشمیر اور لداخ میں جائیداد خریدنے کی اجازت ہو گی۔ حقیقت فرعون نر یندرا مودی نے کشمیریوں کی نسل کشی کے مذموم اور خوفناک عمل کی بنیاد رکھ کر مقبوضہ وادی کو فلسطین بنانے کی داغ بیل ڈال دی ہے۔ مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے منصوبے پر کام شروع ہو چکا ہے۔


بھارت نے اس آرٹیکل کو منسوخ کر کے انسانیت کے ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے منہ پر طمانچہ مارا ہے۔ کشمیر جسے وادی جنت نظر سے تشبہیہ دی جاتی ہے۔ آج اسکی گلیاں و بازار انسانی لاشوں سے بھرے پڑے ہیں۔ جہاں انسانیت چیخ چیخ کر اپنے ہونے کا ما تم کر رہی ہے۔
تمام وادی کسی ہیبت ناک جنگل کا منظر پیش کر رہی ہے۔ جہاں خونخوار درندے شکار کی تلاش میں انسانوں کو نو چ نو چ کر ان کے خون سے اپنی پیاس بجھا رہے ہوں۔

بھارتی فوجی درندے حیوانیت کا بھر پور مظاہرہ کر نے میں مصروف ِ عمل ہیں۔
انتہا پسند ہندؤوں کی سب سے بڑی نمائندہ سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حالیہ انتخابات میں بڑی کامیابی کے بعد تمام امت مسلمہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی کہ خطے کے امن کے لئے خطرے کی گھنٹیاں بج چکی تھیں۔ فرعون نریندرامودی دوسری دفعہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے والے فرعونیت کی انتہا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھیں گے۔

انھوں نے کشمیریوں کا جینا حرام کر نے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ کشمیریوں کی نسل کشی کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھیں گے۔ ان کا پہلا دور بھی تاریخ میں سیاہ حروفوں سے لکھا جائے گا جس میں کشمیریوں کو بیلٹ گنز کے ذریعے بینائی سے محروم کیا گیا۔ یہ ایسا خطرناک ہتھیار ہے جس میں سے بیک وقت 400 چھرے فائر ہوتے ہیں۔ ظالم بھارتی افواج خاص طور پر کشمیریوں کی نئی نسل، جس میں نو عمر بچے، بچیاں شامل ہیں ان کے چہروں کو تا ک کر نشانہ بناتے ہیں۔

یوں وہ بھارتی سفا کیت و حیوانیت کی زد میں آکر زندگی بھر کے لئے نا بینا ہو جاتے ہیں۔ ان کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا جاتا ، قتل و غارت غرض کہ ظلم و ستم کا بازار گرم تھا۔
اس انتہا پسند جماعت سے مسلمانوں کے لئے اچھے کی امید کیسے کی جا سکتی ہے ، بھارتیہ جنتا پارٹی ہمیشہ سے جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے کی مخالف رہی ہے اور اس انتہا پسند اور متعصب ہندو جماعت کا ہمیشہ موقف رہا ہے کہ کشمیر تاریخی اعتبار سے ہمیشہ ہندوستان کااٹوٹ انگ رہا ہے اور اس سے مراد ” ہندوانڈیا“ ہے۔

اس سے پہلے بی جے پی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت پر سب سے پہلے جنوری1948 ء کو نہروں کی جانب سے جموں وکشمیر میں استصواب رائے کا مطالبہ منظو ر کیے جانے کی منظوری کی مخالفت کرتے ہوئے آرٹیکل 35 اے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ایک پورے منصوبے کے تحت یہ کام تو بہت پہلے شروع ہو چکا تھا۔
1980 ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھارتی آئین سے آرٹیکل370 کو نکالنے کے ساتھ ساتھ ریاست جموں و کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

جموں و کشمیر اور لداخ کو بالترتیب مسلم آبادی، بودھ آبادی اور ہندو آبادی وا لا حصہ بنانے کی تجویز پیش کی تھی۔
اب بر سر اقتدار آکر اس نے اپنی حیوانیت کو عملی جامہ پہناتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر دیا ہے۔ مسلمانوں کی نسل کشی اسرائیلی راستے پر چلتے ہوئے اسکے اس حیوانی منصوبے کی دوسری چال ہے۔ تاکہ مقبوضہ وادی سے مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا جائے۔

مسلمان بیٹیوں، بہنوں کی شادیاں ہندؤوں سے کروائی جائیں اور زیادہ سے زیادہ ہندو پیدا کئے جائیں۔ ہر طرف جو ”اللہ اکبر اور پاکستان زندہ باد“ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں اسکو بندے مارترم ، جے رام میں تبدیل کر دیا جائے۔
نر یندرا فرعون اپنے مزموم عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ کشمیریوں کو گھروں میں محصور کر دینے سے ، حریت کانفرنس کے تمام رہنماؤں کو جیلوں میں ڈالنے یا نظر بند کر دینے سے یہ تحریک رکنے والی نہیں۔

ان کے لیڈروں کو پابندِ سلاسل کرنے کے اقدام سے بھارتی حکومت کی بزدلی اور خوف صاف نظر آرہا ہے کہ کوہ کتنی خوفزہ ہے؟
 اتنے کڑے پہروں کے باوجود آزادی کے متوالوں کو باہر نکلنے سے باز نہیں رکھ پا رہے ہیں۔ بھارتی درندوں کے ظلم کی انتہا ہے اور کشمیریوں کے صبرکاایک گہرا سمندر ہے جو ان کے ہر ظلم و سفاکیت کو برداشت کر رہے ہیں پھر بھی اپنے حقِ اداریت سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹ رہے۔


میرا تمام امت مسلمہ سے سوال ہے کہ کیا آپ کے اندر ایمان ختم ہو چکا ہے؟ وہاں آپکی بہنوں، ماؤں ، بیٹیوں کی عزتوں کو سرِ بازار تار تار کیا جا رہا ہے آپ کی غیرت مر چکی ہے؟ جوانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے اور آپ سب تماشائی بنے تماشا دیکھ رہے ہیں۔ آپ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی کیا وہ کسی کے لخت جگر نہیں یا آپ کا نہیں ہے تو آپ کو درد کیوں ؟ کیوں ساری دنیا کو آپ یہ پیغام دے رہے ہیں کہ آؤ کافروں جہاں مرضی گھس جاؤ اور ہمیں اپنا غلام بنا لو۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ آگ یا یہ سیلاب آپ کے گھروں تک نا پہنچے گا۔ اٹھو اے مسلمانوں وہاں کے مسلمان تم کو للکا رہے ہیں۔ اگر اب تم نے ان کا ساتھ نہ دیا تو روز حشر کیا حساب دو گے۔ یہ دنیا تم لوگوں کے وسائل پر عیش کر رہی ہے اور تم لولوگوں نے غلامی کا جو طوق خو اپنی مرضی سے پہنا ہ ہے اس کو اتار پھینکو۔ خدانے ہر قدرتی دولت سے مسلم اُ مہ کو مالا مال کیا ہے۔

پھر کیوں تم دوسروں کے محتاج ہو ۔ اگر خطے پر جنگ مسلط ہوئی تو اسکی لپیٹ میں ساری دنیا آئے گی۔
آج بے حسی کی انتہا یہ ہے کوئی مسلم ملک کشمیریوں کے لئے پاکستان کے ساتھ کھڑا نہیں ہو رہا سوائے چند کے۔ کیوں ان کے ضمیر ان کو ملامت نہیں کر رہے۔ اگر جسم کے ایک حصے کو تکلیف ہو تو اس کو کاٹ نہیں دیا جاتا۔ کتنے حصے کا ٹو گے آخر کو تو تم کو بھی کٹنا ہے۔

جا گو اے مسلمانوں جا گو پاکستان کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے ہمہ وقت تیار ہے۔ لیکن وہ خطے میں امن چا ہتا ہے۔ ہماری پاک فوج دنیا کی بہترین فوج ہے۔ بھارت اس غلط فہمی میں بالکل بھی نہ رہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے ٹکڑے کر کے اسکی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے اپنا اٹوٹ انگ بنا لے گا۔ یہ بزدل قوم ہوش کے ناخن لے اور سوچے کے 72سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود آج تک وہ بے پناہ مظالم ڈھا کر بھی کشمیریوں کے جذبہ حقِ خود اداریت کونہیں دبا سکے تو اب کالا قانون نافذ کر کے فرعون نر یندرا مودی اور سکی جماعت نے یہ کیسے سوچ لیا کہ کشمیری اپنے حق سے دست بردار ہوں گے۔

کشمیریوں نے اس وادی نظیر کو اپنے خون سے سینچا ہے انہوں نے اس وادی کو اپنے لہو کے چراغ جلا کر روشن کیا ہے اور ان چراغو ں کی روشنی ساری دنیا تک پہنچ رہی ہے اور بھارت کے مکرو چہرے کو دنیا بہت اچھے طریقے سے دیکھ رہی ہے۔
اقوام متحدہ اب کیوں خاموش ہے؟اپنی قراردادوں کی کھلے عام دھجیاں اڑتے ہوئے اسکو نظر کیوں نہیں آرہیں؟ کیوں اپنی امن فوج وہاں نہیں بھیج رہا آج کئی روز ہو چکے کر فیو کو کیوں نہیں تڑوایا جا سکا صرف اس لئے کہ یہ مسلمان ہیں اگر کوئی اور ہوتا تو فوراً کر فیو تڑ وا دیا جاتا۔


مسلمانوں کے خون کی قیمت اتنی سستی ہے کہ پاکستان سلامتی کونسل میں معاملہ لے جا چکا ہے اور میرے کشمیری بھائی ۔ بہنو اور بزرگو کے حق کے لئے لڑ بھی رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ باقی امت مسلمہ کب بیدار ہوتی ہے اور پنا کردار ادا کرتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو وہ وقت دور نہیں جب مٹھی بھر مسلمان رہ جائیں گے اور پھر کسی محمود غزنوی، صلاح الدین ایوبی وغیرہ کا نتظار ہو گا جو آکر تم لوگوں کو بچائے گا۔

اس سے پہلے کہ یہ نوبت آئے ہم کو اپنے اندر محمود غزنوی، صلاح الدین ایوبی، خالد بن ولید زندہ کرنے ہوں گے۔ تب ہی ہم ان بیرونی طاقتوں کا ، ان شیطانوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ہم کو اپنا آپ یکجا کرنا ہو گا۔ا ن بچوں کی آہ پکار ، سسکیاں ماؤں کی ٹرپ، سب سننا ہو گی بے حسی کے سمندر سے باہر نکلنا ہو گا۔ وہ سب ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور بھائی ہیں۔


امید ہے کہ پاکستان بہت کامیابی سے عالمی فورم پر کشمیر کا مقدمہ لڑے گا اور اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کراتے ہوئے کشمیریوں کو رائے شماری کے ذریعے ان کی قسمتوں کا فیصلہ کرنے میں کامیاب ہو گی۔ اور دنیا بھی اپنا مثبت کردار بھر پور طریقے سے ادا کرے گی۔
لہجہ ظلم و جہالت نے برا حال کیا
بن کے مقراض ہمیں بے پرو بال کیا
توڑ اس دستِ جفا کش کو یارب
جس نے روحِ آزادی کشمیر کو پاما ل کیا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :