نہلے پہ دہلا

جمعہ 18 دسمبر 2020

Kausar Abbas

کوثر عباس

نہلا: آخر حکومت کو کرونا ایس او پیز پر عمل کرانا یاد آہی گیا ہے ۔ سنا ہے جس ہوٹل میں مریم نواز نے ریلی کے دوران کھانا کھایا تھا ، سوشل ڈسٹانسگ پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے حکومت نے مالک کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے ۔
دہلا : گھر سے کالج کے لیے نکلی اور وہاں سے اپنے دوست کے ساتھ شہر کے معروف ہوٹل پہنچ گئی۔ اتفاقاً لڑکی کا باپ بھی اپنے دوست کے ساتھ وہاں آن پہنچا ۔

اس نے اپنی صاحبزادی کو اجنبی کے ساتھ دیکھا تواور تو کچھ نہ کر سکا، بس منہ پر ہاتھ پھیر کر رہ گیا ۔ گویا کہہ رہا ہو : عزت کا تماشا نہ نکل جائے ، اس لیے یہاں تو میں خاموش ہوں ، تو گھر توپہنچ ، میں تمہیں بتاتا ہوں ۔ ۔ لڑکا پریشان ہو گیا کہ اب نہ جانے میری محبوبہ کے ساتھ کیا ہو گا ؟ شام کو لڑکی کا فون آیا تواس نے پریشانی کے عالم میں پوچھا: کیا بنا؟گھر والوں نے مارا تو نہیں ؟ لڑکی بولی: بننا کیا تھا ؟ تمہیں بتایا توتھا کہ میرے گھر والے بڑے غصے والے ہیں ؟ انہوں نے مجھ سے رکشے کا کرایہ واپس لے لیا ہے ؟
نہلا: یار تم تو ہر بات کو لطیفوں میں اڑا دیتے ہو ۔

(جاری ہے)

صرف ہوٹل پر نہیں بلکہ مقدمہ حمزہ شہباز پر بھی بننا چاہیے کیونکہ پولٹری فارمنگ کی انڈسٹری پر اسی کا قبضہ ہے ۔نہ وہ مرغیاں بیچتا اور نہ کڑاہیاں بنتیں۔اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت کو کرونا ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کرانا چاہیے ۔
دہلا : سنا ہے ریلی والوں نے چائے بھی تھی اور تم سے بہتر یہ بات کون سمجھ سکتا ہے کہ چینی کس کی فیکٹری سے آئی ہو گی ؟تو مقدمہ تو فیکٹری مالکان پر بھی بننا چاہیے ۔


نہلا : تم نے چینی سے پوچھا ہے یا ہوٹل والوں کی رسیدیں دیکھ لی ہیں ؟اصل میں تم لوگوں سے حکومت کی کارکردگی ہضم نہیں ہو رہی ۔ اب تو خان نے پرفارمنس بہتر بنانے کے لیے کسی کا لحاظ کیے بغیر وزارتیں تک تبدیل کر دی ہیں ۔
دہلا :اچھا ...! موڈ خراب نہ کرو ۔ میں تمہیں ایک لطیفہ سناتا ہوں ۔ سنا ہے دو دوست تھے ۔ دونوں کی ایک گندی عادت تھی کہ نہ نہاتے اور نہ کپڑے تبدیل کرتے ۔

پورا شہر دونوں کی اس عادت سے واقف تھا ۔ ایک دفعہ دونوں کسی دکان سے خریداری کر رہے تھے ۔گرمیوں کے دن تھے اور دونوں کے جسم اور کپڑوں سے بدبو کے بھبھوکے اٹھ رہے تھے ۔دکاندار نے تنگ آ کر کہا : بھائی لوگو! کم از کم کپڑے تو تبدیل کر لیتے ۔دونوں نے کسی کا لحاظ کیے بغیر وہیں کپڑے اتارے اور ایک دوسرے کے ساتھ تبدیل کر لیے ۔
نہلا :تم رہے پٹواری کے پٹواری ! تمہیں اتنا بھی معلوم نہیں کپڑوں کی تبدیلی اور پوزیشن کی تبدیلی میں کتنا فرق ہے ؟ہزاروں مثالیں ہیں کہ کوئی بیٹسمین اوپنر کی پوزیشن پر نہ کھیل سکا لیکن جب پوزیشن تبدیل کر اسے تیسرے چوتھے نمبر پر کھلایا گیا تو اس نے رنزوں کے ڈھیر لگا دیے ۔

یہ مسئلہ تم جیسے لطیفہ باز کو سمجھ آ بھی نہیں سکتا ۔اب تو فردوس آپا نے صاف کہہ دیا ہے کہ قانون کو للکارنے پر ڈنڈا حرکت میں آئے گا ۔
دہلا :تم نے بیان غورسے سنا توتھا ؟کہیں ان کا مطلب یہ نہ ہو کہ ڈنڈے کو حرکت میں لاتے ہوئے قانون توڑنا ۔کیونکہ حکمران جماعت اور اس کے سیاسی کزن علامہ کنیڈی کا طریقہ تو یہی تھا کہ محض للکارنے کی بجائے موٹے موٹے ڈنڈوں سے قانون کو ”حرکت“ میں لاوٴ۔

یقین نہیں آتا تو دونوں کے مشہور زمانہ دھرنوں کی ویڈیو زدیکھ لو ۔یا پھر شاید ان کا مطلب یہ ہوکہ قانون کو للکارنے پرتو ڈنڈا حرکت میں آئے گا لیکن قانون توڑنے پر ۔
نہلا: تب کرونا نہیں آیا تھا دہلے صاحب ! تمہیں تو فردوس آپا کے بیان سے کیڑے نکالنے کا شوق ہے ۔چلوانہیں جانے دو ، تمہیں خان کا یہ بیان بھی نظر نہیں آیا کہ اپوزیشن دو تین ماہ کے لیے جلسے موٴخر کر دے؟
دہلا :بن نہلائے میرے نہلے بھائی ! تمہیں اپوزیشن اتنی بیوقوف نظر آتی ہے؟دوتین ماہ! یعنی مارچ تک کچھ نہ ہو ؟مارچ میں ہی تو گیم ڈلنی ہے میرے پیارے بھائی ۔

اپوزیشن اب کسی ایسی چال میں نہیں آئے گی جبکہ ان کے ساتھ دو تین بار پہلے بھی ہاتھ ہو چکا ہے۔مارچ کے بعد جلسے جلوسوں سے نہ تو حکومت کو کچھ ہونا ہے اور نہ ہی اپوزشن کو کچھ ملنا ہے ۔ لہذا دونوں کے پاس مارچ سے پہلے تک کا وقت ہے۔
نہلا:تم پٹواریوں کی یہ بری عادت ہے کہ ہر بات میں سیاست لے آتے ہو ۔تمہیں معاملے کی سنگینی کا احساس ہے ؟ اب توبزدار نے بھی کہہ دیا ہے کہ کرونا وبا کے دنوں میں جلسے جلوس کرکے لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنا سیاست نہیں بے حسی ہے۔


دہلا: جی بالکل! لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنا اپوزیشن کا نہیں بلکہ صرف حکومت کا حق ہے اور حکومت نے دن رات ایک کر کے ریکارڈ مہنگائی کی صورت میں یہ حق بخوبی ادا بھی کیا ہے ۔ اولاد نے کھانا مانگا، باپ کے پاس تھا نہیں اور اس نے تینوں بچوں کو دریا برد کر دیا۔ایک اوروالد نے بچوں کو زہر دے کر خود بھی زہر کھا لیا ۔
نہلا : کیا ان درندہ صفت انسانوں کو حکومت نے کہا تھا کہ محنت مزدور کی بجائے اولاد کو مار دو؟مہنگائی کم ہو رہی ہے ۔

خان نے خود کہا ہے کہ چینی اسّی روپے کلو فروخت ہو رہی ہے ۔
دہلا :میرے استاذنے ایک بار وائیٹ بورڈ پر ایک لمبی لکیر لگائی اور کہا: تم میں سے کوئی اس لائن کو کاٹے بغیر چھوٹا کر سکتا ہے؟ سارے طلبہ نے ہار مان کر پوچھا:کیا یہ ممکن ہے؟استاذ نے کہا: بالکل ۔طلبہ نے پوچھا : کیسے ؟انہوں اسی لائن کے اوپر اس سے بھی لمبی لائن لگائی اور کلاس کی طرف مڑ کر کہا : ایسے!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :