
تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے!
جمعرات 18 فروری 2021

کوثر عباس
(جاری ہے)
پہلے اور دوسرے فریق کی آپس میں چپقلش تھی ۔دوسرا فریق سویلین بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے بعض اقدامات کر رہاتھا جن سے پہلا فریق خوش نہیں تھا۔
پہلا فریق یعنی مقتدرہ حکومت کا تختہ الٹنے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھا لہذا سوچا گیا کہ کسی اور طریقے سے دوسرے فریق( نوازشریف) کا راستہ روکتے ہیں۔اس مقصد کے لیے بعض دوسرے ناگفتہ اقدامات کے علاوہ لندن پلان طے پایا اور دو کزن (عمران اور طاہر القادری) میدان میں اتارے گئے۔لیکن نواز حکومت اعصاب کی مضبوط نکلی ۔اسی دوران ناموس رسالت ایکٹ میں ترمیم کا مسئلہ” پید“ا ہوا۔خادم حسین رضوی ایک بھرپور قوت بن کر میدان میں اترے۔انہوں نے لاہور سے لانگ مارچ کیااور فیض آباد میں دھرنا دے دیا۔ان کا مطالبہ وفاقی وزیر قانون کا استعفاء تھا جو پورا بھی کیا گیا۔لیکن اس مطالبے سے پہلے کیا ہوا؟تحریک لبیک کا دھرنا منتشر کرنے کے لیے ایک بھرپور آپریشن کیا گیا ۔ٹی وی چینلز نے جس کی لائیو کوریج کی ،لوگوں میں اشتعال پیدا ہوااور یوں فیض آباد کا دھرنا منتشر کرانے کے چکر میں پورے پاکستان میں دھرنے شروع ہو گئے جس سے پورا پاکستان جام ہو گیا۔اس دھرنے اور حکومت کے خلاف بھرپور جاندار مزاحمت کرنے سے تحریک لبیک پاکستان ایک بڑی جماعت بن کر ابھری۔حکومت کو سرنڈر کر کے معاہدہ کرنا پڑاجس سے ایک طرف حکومت کی سبکی ہوئی اور دوسری طرف تحریک لبیک پاکستان کے کارکن اس تفاخر میں مبتلا ہو گئے کہ وہ جب چاہیں حکومت کا ناطقہ بند کر سکتے ہیں۔بعض لوگوں نے اس ضمن میں یہ کہا کہ تحریک لبیک پاکستان کو مقتدرہ کی حمایت حاصل تھی اور خادم حسین رضوی انہی کے اشارے پر تشریف لائے تھے ۔لیکن میرے خیال میں یہ بات حقیقت سے دور ہے لیکن اس بات میں شک نہیں مقتدرہ نے T.L.P اور نواز حکومت کی لڑائی فائدہ اٹھایا اور نواز شریف کو خوب سبق سکھایا۔اس دور میں پنجاب کے زیادہ تر اضلاع میں D.C حضرات کی پروفائل چیک کی جائے تو معاملے کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔پنجاب میں پولیس نے ایسا برائے نام آپریشن کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ لکھا جائے کہ آپریشن تو ہوا لیکن ہر شہر کی پولیس T.L.Pکے آگے بے بس ہو گئی ۔یعنی مقصد حکومت کی سبکی کرانا تھا۔اس تاثر کی ایک مضبوط دلیل بھی ہے کہ عمران حکومت کے خلاف وہی پنجاب پولیس تھی اور وہی T.L.Pلیکن لانگ مارچ اور دھرنا تو کجا ان کی پوری قیادت کو باہر نکلنے سے پہلے ہی جیلوں میں بندکر دیا گیا۔بلکہ کچھ واقعات کا میں عینی شاہد ہوں کہ ایسے لوگوں کو بھی گرفتار کیا گیا جن کا تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں تھا۔اگر کوئی یہ بات کرتا تو کہا جاتا تھا کہ بندہ دے جاوٴ اور ان کو لے جاوٴ۔بڑے بڑے لوگ جو نواز حکومت میںT.L.P سے تعلق کو باعث فخر سجھتے تھے وہ بیان حلفی جاری کرنے لگے کہ ہمارا تحریک سے کوئی تعلق نہیں ۔کیوں اور کیسے نواز دور میں پولیس ہار گئی اور عمران دور میں جیت گئی ؟کیونکہ اس وقت پہلا فریق دوسرے فریق کے ساتھ تھا۔یہی پوائنٹ ان حضرات کی بات کو رد کرنے کے لیے بھی کافی ہے جو کہتے ہیں کہ فیض آباد دھرنا مقتدرہ کے اشارے پر پوا تھا کیونکہ اگر ان کے اشارے پر ہوتا تو عمران حکومت میں ان کو جیلوں میں بند کر کے ظلم وستم کا نشانہ نہ بنایا جاتا۔تین مہینے کے بعد انہیں جیلوں سے رہا کر دیا گیا ۔
تحریک لبیک اور عمران حکومت ایک بار پھر فرانس کے سفیر کی بے دخلی کے معاملے پر آمنے سامنے آئیں ۔فیض آباد میں دھرنا دیا گیا ۔جو لوگ مقتدرہ کے نزدیک ختم نبوت کے محافظ اور ملک کا سب سے بڑا طبقہ تھا وہی لوگ فسادی اور چھوٹا طبقہ قرار پایا۔عمران حکومت نے بھی صبح تین بجے سے لے کر دس بجے بدترین شیلنگ کی بلکہ نوے فیصد ایکسپائر شیل داغے گئے لیکن ایک بار پھر T.L.P نے تاریخی مزاحمت کر کے اپنا لوہا منوایا۔مذاکرات ہوئے اور سولہ فروری تک سفیر کی بیدخلی کا وعدہ کر کے حکومت نے جان چھڑائی ۔امکان یہ تھا کہ سترہ فروری کی صبح حکومت کے لیے ایک کٹھن امتحان لے کر طلوع ہو گی۔لیکنحکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان معاہدے میں توسیع ہو گئی ہے۔باخبر لوگوں کا کہنا ہے کہ T.L.P کی لچک کا سبب مفتی منیب الرحمن صاحب کا( معاصر اخبار میں)ایک کالم تھا جس میں انہوں نے رخصت اور عزیمت کے عنوان سے سعد حسین رضوی کے لیے ایک راہ متعین کی۔لیکن میرے خیال میں حکومت نے بڑی چالاکی سے فرانسیسی سفیر کی بیدخلی کو پارلیمنٹ کی اجازت سے مشروط کر دیا ہے۔پارلیمنٹ کبھی اس کی اجازت نہیں دے گی اور یوں تحریک کو اس معاہدے کی رو سے اپنے مطالبے سے دستبردار ہو نا پڑے گا۔یعنی T.L.P سے ہاتھ ہو گیا ہے اور مستقبل میں کچھ ہونے والا نہیں ہے کیونکہ پہلا اور دوسرا فریق فی الحال ایک پیج پر ہیں اورکوئی کسی کو نیچا نہیں دکھانا نہیں چاہتا ۔لہذا T.L.P کو بھی یہ خیال دل سے نکال دینا چاہیے کہ چاہیں تو ملک بند کر سکتے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
کوثر عباس کے کالمز
-
میری بیلن ڈائن!
ہفتہ 19 فروری 2022
-
اسامی خالی ہیں !
ہفتہ 12 فروری 2022
-
ایک کہانی بڑی پرانی !
بدھ 26 جنوری 2022
-
اُف ! ایک بار پھر وہی کیلا ؟
جمعرات 20 جنوری 2022
-
نمک مت چھڑکیں!
جمعرات 13 جنوری 2022
-
دن کا اندھیرا روشن ہے !
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
سانحہ سیالکوٹ: حکومت ، علماء اور محققین کے لیے دو انتہائی اہم پہلو
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
بس ایک بوتل!
اتوار 5 دسمبر 2021
کوثر عباس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.