رٹ بجا مگر ریاست کی یا حکومت کی؟

ہفتہ 24 اپریل 2021

Kausar Abbas

کوثر عباس

حافظ سعد حسین رضوی کی گرفتاری کے بعد جو کچھ ہوا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔میری طرف سے اس میں یہ اضافہ کر لیجیے کہ حکومت مفتی الرحمن صاحب کے توسط میں تحریک لبیک کے ساتھ رابطے میں تھی اور شاید کچھ ہو بھی جاتا لیکن یہ کوشش دو وجوہات کی بنا پر ناکام ہو گئی۔ایک تو سترہ اپریل کو ان کے بھائی کا انتقال ہو گیا اور دوسرا یہ رابطہ سعد رضوی کی گرفتاری کے بعد کیا گیا۔

حکومت اگر سیریس ہوتی تو گرفتاری سے پہلے ملک کے جید علماء سے رابطہ کرتی اور گرفتاری جیسے انتہائی اقدام تک اسی وقت جاتی جب تمام راستوں کو بند پاتی جبکہ معاہدہ ختم ہونے میں ابھی کافی دن بھی باقی تھے۔
جونہی سعد رضوی کو گرفتار کیا گیا ، ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے ۔تلہ گنگ ، خضدار ، فیصل آباد ، رحیم یارخان،کراچی اور کچھ دیگر جگہوں پر لاشیں گرنے سے دوسری طرف بھی اشتعال پھیل گیا اور پتھراوٴ سے چار پولیس والے بھی جاں بحق ہو گئے۔

(جاری ہے)

یہاں سے سوشل میڈیا پر متحرک دو درجن افراد نے آگ بھڑکانا شروع کی جس سے سوشل میڈیا پر ہی ریاست مدینہ قائم کرتی حکومت شاید جذباتی ہو گئی اور رٹ قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔حالانکہ میں مکمل تحقیق کے بعد یہ کہہ رہا ہوں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے آگ بھڑکانے والے یہ دو درجن وہی لوگ تھے جنہوں نے اس سے پہلے لال مسجد کا سانحہ برپا کرنے میں بھی اپنا پورا ”قلمی زور“ لگایا تھااور جب وہ سانحہ ہو گیا تھا تو فوج کے خلاف پروپیگنڈا کر کے گٹھلیوں کے دام بھی کھرے کیے تھے۔

ان لوگوں کی پروفائل میں ایک چیز مشترکہ ہے اور وہ ہے فوج سے نفرت ۔انہوں نے اس موقعے پر پولیس اور فوج کا موازنہ شروع کر دیا اور اس پولیس کو بھی ”ملکوتی “ صفات کا پیکر بنا ڈالا جسے انہوں نے شاید کبھی اچھا لکھنا اور کہنا تو دور کی بات ہے ، اچھا سوچا بھی نہ تھا۔ان کے پروپیگنڈے کا اثر یہ ہوا کہ پولیس نے گرفتارشدگان کو تھانوں میں حیوانی تشدد کا نشانہ بنا کر ان کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر دیں جس سے مزید اشتعال نے جنم لیا۔

حالانکہ پولیس قانونی طور صرف اتنی ہی طاقت استعمال کر سکتی ہے جتنی مظاہرین کو گرفتار کرنے کے لیے ضروری ہو اور جب کوئی بندہ گرفتار ہو جاتا ہے تو اس کے بعد پولیس کی طاقت نہیں بلکہ قانون کی عملداری شروع ہوتی ہے ۔بجائے اس کے حکومت پولیس سے تشدد کی بابت سوال کرتی ، الٹا وزیراعظم نے پولیس کو شاباش دے کر جلتی پر تیل کا کام کیا۔حکومت کوپولیس فورس کا یہ نفسیاتی تجزیہ کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ گرفتاری کے بعد پاکستانی پولیس اسیران پر کیوں پل پڑتی ہے؟
سب ہوتا رہا مگر حکومت پہلے تو سوئی رہی اور جب جاگی تو سب سے پہلی نوید یہ سنائی کہ تحریک لبیک کو کالعدم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔

حکومت یہ تمام کارروائیاں” رٹ“ کے نام پر کر رہی تھی مگر خیر کی بجائے شر پیدا ہو رہا تھاکیونکہ جن بنیادوں پر حکومت نے تحریک لبیک کو کالعدم قرار دیا وہ تمام وجوہات پارلیمنٹ میں بیٹھی تمام سیاسی جماعتوں میں موجود تھیں جس کی طرف ممبر قومی اسمبلی صلاح الدین ایوبی نے یہ کہہ کر اشارہ کیا کہ آخر تحریک لبیک نے ایسا کیا کیا ہے جو یہاں بیٹھی ساری جماعتوں نے اس سے پہلے نہیں کیا؟ اگر وہ دہشت گرد ہیں تو یہاں بیٹھے ہم لوگ بھی دہشت گرد ہیں۔

ان کی بات میں وزن تھا کہ یہ سب کام حکمران جماعت اپنے سیاسی کزن کے ساتھ مل کر چکی تھی ، محترمہ کے شہادت پراس سے بھی بدتر ہوا تھا ، وفاق میں حکومت کی ایک اتحادی جماعت نے ایک عرصے تک کراچی کو یرغمال بنائے رکھا۔بلکہ اس میں بنیادی فرق یہ تھا کہ ہنڈی ، حوالے ، جلاوٴ، گھیراوٴ، آگ لگادو ، سول نافرمانی ، ٹیکس نہ دو ، پی ٹی وی پر قبضہ ، تھانے سے اپنے کارکن چھڑانے اور بل جلانے جیسے واقعات حکمران جماعت کے سٹیج سے باقاعدہ پارٹی پالیسی کے طور پر جاری کیے گئے تھے جبکہ دوسری طرف کالعدم تحریک لبیک کے کسی بھی مرکزی قائد نے قانون ہاتھ میں لینے کی اپیل نہیں کی ۔

لہذا ایک طرف پوری جماعت اور ایک طرف چند کارکنوں کا قانون میں ہاتھ لینالیکن پابندی صرف تحریک لبیک پر،جس سے ایسا لگا یہ رٹ ریاست کی نہیں بلکہ حکومت کی تھی کیونکہ ریاست جب اپنی رٹ قائم کرتی ہے تو وہ اپنا پرایا نہیں دیکھتی ،اس میں حضرت عمر کے بیٹے کو بھی کوڑے کھانا پڑتے ہیں۔حکومت کو ایک سیاسی جماعت کا مقابلہ سیاسی جماعت کے طور پر کرناچاہیے نہ کہ ریاست کے اختیارات جو کہ اس کے ہاتھ میں بطور امانت دیے گئے ہیں ، کو اپنی ڈھال اور مفادات کے طور پر استعمال کرے بلکہ یہ سوچے کہ جب وہ خود احتجاج کر رہے تھے اگر اس وقت مسلم لیگ نون کی حکومت ان کو کالعدم قرار دیتی تو کیا یہ ٹھیک ہوتا؟
ابھی پچھلی گرد بیٹھی نہیں تھی کہ لاہور کے مرکزی دھرنے پر اندھی طاقت کا استعمال کیا ۔

جب زخمیوں اور جان بحق لوگوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو حکومتی موقف آیا کہ چند شرپسندوں نے تھانہ نواں کوٹ پولیس اور مظاہرین کو یرغمال بنا لیا تھا جس کے ردعمل میں کارروائی کی گئی ۔صرف اتنا سوال کہ یہ خبر یتیم خانہ چوک پر خون کی ہولی کھیلنے کے بعدکئی گھنٹے بعد کیوں جاری کی گئی؟ تمام تھانے اس وقت CCTV کی سہولت سے لیس ہیں کیا حکومت کے پاس کوئی فوٹیج موجود ہے؟اگر ایسا ہواہوتا تو حکومت لازمی اس کو کوریج دے کر اپنے حق میں کیش کراتی ۔

آخری اطلاعات تک سراج الحق اور مفتی منیب الرحمان سمیت متعدد علما متحرک ہو چکے ہیں ۔حکومت سے بس اتنی ہی گزارش ہے کہ رٹ ضرور قائم کرے مگر ریاست کی اپنے عزائم کی نہیں تاکہ متاثرین کا اعتماد بحال ہو اور امن اپنا راستہ بنائے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :