مصطفائی قافلہ فلسطین میں!

بدھ 7 جولائی 2021

Kausar Abbas

کوثر عباس

”ہر گھر کربلا ہے ،کہرام بپا ہے، ہر گھر کی اپنی داستان ہے جسے سنانے کے لیے حوصلہ چاہیے ، بربادی کے ایسے مناظر ہیں کہ دیکھنے کے لیے جگر چاہیے“۔فون میری کان سے لگا ہوا تھا اور میں دم سادھے دوسری طرف کی گفتگو سن رہا تھا ۔اگرچہ مزید جاننے کا اشتیاق تھا لیکن ان کی آواز میں اتنا درد تھا کہ مجھے سننے کا یارا نہ رہا ،میں نے بات مختصر کر دی ، ان سے اجازت مانگی اور فون بند کردیا ۔

یہ بات اسرائیلی کی فلسطین پر حالیہ جارحیت پر ہو رہی تھی ۔
اسرائیلی جارحیت ایسی تھی کہ اپنے تو اپنے غیربھی مجبوراً فلسطین کی حمایت میں بول پڑے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ یہودیت کی تعلیمات نہیں ۔یہ صیہونیت ہے جس کا یہودیوں سے کوئی تعلق نہیں ۔پریشانی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسرائیلی فورسز نے ملکی اور بین الاقوامی میڈیا پر پابندی لگائی ہوئی تھی اور ”وقت کی کربلا “ میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی ۔

(جاری ہے)

بلکہ بمباری میں خود کئی میڈیا ہاوٴسز بھی راکھ کا ڈھیر بن گئے لیکن کسی کو آزادی صحافت کا نوحہ پڑھنے کی توفیق نہ ہوئی ۔سوشل میڈیا پر اگرچہ کچھ رپورٹیں آ رہی تھیں لیکن کئی ایک پرانی ویڈیو منظر عام پر آنے سے جہاں مناظر قدرے دھندلارہے تھے وہیں تشویش میں اضافے کا باعث بھی بن رہے تھے۔ان حالات میں کوشش کی کہ کسی عینی شاہد سے مصدقہ معلومات کی کوشش میں ایک خبر نظروں سے گزری کہ المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد صاحب برطانیا سے مظلوم فلسطینیوں کی مدد کے لیے غزہ جارہے ہیں۔

میں نے ان سے رابطہ کرنے کا ارادہ کیا لیکن پھر ان کے مقصد کو اپنی خواہشات پر ترجیح دیتے ہوئے سوچا کہ پہلے انہیں ان کا کام کرنے دیا جائے ۔وہ وہاں جائیں ، مظلوموں کی مدد کریں اور حالات کا جائزہ لیں ۔ مشاہدے کے بعد کی نظر اور سوچ میں پختگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔ان کی انگلینڈ واپسی کے بعدجب میں نے فون کیا تو معلوم ہوا کہ غزہ مکمل اجڑ چکا ہے ، علاقہ کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے ، تین سو زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہیں جن میں کئی ایک سیریس ہیں ۔

خود اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سولہ ہزار سے زائد مسلمان گھرانے ، اٹھاون سکول ، دس ہسپتال اور بیس سے زائد نجی کلینک بھی ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں ۔یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو ریکارڈ پر آئے ۔ان حالات میں کہ خود میڈیا تک محفوظ نہیں تھا ، المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ والوں کا یہ اقدام ”بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق “ کی زندہ مثال تھی ۔


مختلف مشکلات کو سہتے لوئے یہ لوگ اردن اور مصر کی سرحد پر قائم مہاجر کیمپوں تک پہنچے اور اپنے بھائیوں کی داد رسی کی۔پھٹے پرانے کپڑے پہنے اور پلاسٹک اور متروک کپڑوں سے بنی چھونپڑیوں میں زندگی بسر کرتے یہ فلسطینی عالم اسلام کی بے بسی کی تصویر بھی ہیں اور اہل فلسطین کی جواں ہمتی کا منہ بولتا ثبوت بھی ۔خوراک ، ادویات اور دیگر ضروریات زندگی کی مد میں ایک لاکھ پاوٴنڈکی خطیر رقم المصطفیٰ ویلفیئر کے پلیٹ فارم سے راہ خدا میں صرف کی گئی ۔

لیکن مجھے ایک حوالے سے بھی طمانیت کا حساس ہوا کہ مصطفیٰ والوں کے اس قافلے کو فلسطینیوں بلکہ عالم اسلام کا نظریاتی پہلو بھی یاد رہا ۔ گوناگوں مشکلات سہتا ہوا یہ قافلہ مسجد اقصیٰ بھی پہنچا اور وہاں کے امام الشیخ عمر الکسوانی کے ساتھ ملاقات کی۔عمر الکسوانی کے مطابق حالیہ بمباری میں مسجد الاقصیٰ کو تقریباً دو لاکھ پاوٴنڈ کا نقصان پہنچا ہے ۔

عرب نیوز کے مطابق المصطفیٰ ویلفئیر کی ٹیم نے انہیں ہر ممکنہ مدد فراہم کرنے کا یقین دلایا ۔
ایک انتہائی اہم بات جو تمام مسلمانوں کو یاد رکھین چاہیے وہ یہ ہے کہ غزہ کی محصور پٹی میں بسنے والے یہ مسلمان تمام عالم اسلام کا کفارہ ادا کر رہے ہیں ۔عبدالرزاق ساجد نے بتایا کہ اسی علاقے کو اسرائیل ضم کرنا چاہتا ہے اور وہاں بسنے والے فلسطینیوں کو زمین چھوڑنے یا بیچنے کے عوض کسی بھی ملک کی شہریت اور منہ مانگی قیمت دینے پر بھی تیار ہے لیکن آفرین ہے ان بھوکے پیاسے اور شہادتیں دیتے محصور فلسطینیوں کو جوہر قسم کی پیشکش کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عالم اسلام کی عزت مقدمہ لڑ رہے ہیں۔


میری نظروں سے اس ویڈیو کے مناظر اوجھل نہیں ہو پارہے جس میں صیہونی اچھل اچھل کر مسلمانوں کو کہہ رہے تھے کہ کہاں گیا تمہارا نبی ؟ وہ مختلف عرب ممالک کا نام لے کر کہہ رہے تھے کہ فلاں فلاں ملک تو ہمارے ساتھ ہے اور ان ممالک کو ”ابن الزنا“ کی گالیاں دے دے فلسطینیوں سے پوچھ رہے تھے: کہاں گئے فلسطینیوں کے ہمدرد ؟بلاشبہ مسلمان عوام کے دل اپنے فلسطینیوں بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں لیکن اگلوں نے سربراہان پر ایسی سرمایہ کاری کر رکھی ہے کہ ان کی حالت بقول میر اس طرح ہے ۔


”کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب “
کھالیاں کھا کے بھی بے مزہ نہ ہوا “
یہود کی گالیاں سن کر بے مزہ ہونا تو ایک طرف ، اس پر مستزاد یہ ہے کہ جہادجیسی اسلامی اصطلاح پر بھی ہر اسلامی حکومت نے قبضہ کر کے اس کے جملہ حقوق اپنے نام کر رکھے ہیں ۔ ان حالات میں دل کڑھتا تھا کہ کوئی تو صیہونیوں کے نعرے ”کہاں ہیں تمہارے ہمدرد ؟“ کا جواب دیتا !۔

بحیثیت مسلمان میرا دل خوش ہوا کہ کوئی مسلم تنظیم تواپنے بھائیوں کی مدد کو پہنچی اور اہلیان پاکستان کی نمائندگی کر کے ہمیں ایک گونہ طمانیت کا احساس دلایا۔۔سوال لیکن یہ بھی ہے کہ عبدالرزاق ساجد جیسے لوگ تو جو بس میں کر رہے ہیں ، اسلامی ممالک کی کیا کررہے ہیں ؟فوج اور ہتھیار نہ سہی مرہم پٹیاں اور خوراک تو بھیج سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :