بس فقط ایک انگلی !

جمعرات 21 اکتوبر 2021

Kausar Abbas

کوثر عباس

ایک عورت نے شیشے کی لنگری میں چٹنی کوٹنے کے لیے ڈنڈا اٹھایا تو شیطان کہنے :اس عورت کے کام دیکھو ۔ جب لنگری ٹوٹے گی تو کہے گی کہ شیطان نے میری مت مار دی تھی ۔کرتوت لوگ خود کرتے ہیں جبکہ بدنامی میرے حصے میںآ تی ہے اور وہ بھی خواہ مخواہ ۔ میں تو بس دنیا میں ویسے ہی بدنام ہوں ۔لیکن شہابا مستری اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوا تو شیطان اسے لے کر ایک بازار میں آ کھڑا ہوا ۔

وہاں ایک حلوائی جلیبی بنا رہا تھا ۔ شیطان نے کہا : اب دیکھنا اور پھر خود فیصلہ کرنا۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی انگلی شیرے میں ڈبوئی اور دیوار پر ایک لکیر بنا دی ۔ تھوڑی ہی دیر میں وہاں مکھیوں کی بھنبھناہٹ ہونے لگی اور کچھ پتنگے بھی جمع ہو گئے ۔قریب ہی ایک چھپکلی جانے کب سے شکار کی تلاش میں تھی ۔

(جاری ہے)

اس نے پتنگوں کو دیکھا تو ان کی طرف لپکی ۔ حلوائی نے چوہے بھگانے کے لیے ایک بلی رکھی ہوئی تھی۔

اس نے چھپکلی دیکھی تو اسے قابو کرنے کے لیے پر تولنے لگی ۔ اب ہوا یوں کہ چھپکلی پتنگوں کی طرف لپکی ، جونہی وہ زد میں آئی تاک میں کھڑی بلی نے اسے قابو کرنے کے لیے چھلانگ لگا دی ۔انہی لمحات میں دکان پر ایک گاہک بھی کھڑا تھا جس کے ساتھ اس کا” شیرو “ نامی لاڈلا کتا بھی موجود تھا ۔اس نے بلی کو دیکھا تو جھٹ سے چھلانگ کر بلی کو قابو کر لیا ۔

حلوائی نے اپنی بلی کو مرتا دیکھا تو ڈنڈا اٹھایا اور کتے کے سر پر دے مارا ۔ اپنے کتے کو مرتے دیکھا تو مالک نے وہی ڈنڈا حلوائی کے ہاتھ سے چھین کر اسے مارڈالا ۔ فریقین کے ساتھ آئے آدمیوں میں گھمسان کا رن پڑا ۔کتنے آدمی مرے اور کتنے زخمی ہوئے ، یہ دیکھنے سے پہلے ہی شیطان نے شہابے مستری کو بازو سے پکڑا اور اسے کھینچتا ہوا دور ایک کونے میں لے گیا اور بولا : اب بتاوٴ کہ قصور کس کا ہے ؟ میں نے تو فقط ایک انگلی ہی ہلائی تھی لیکن تم دیکھنا لوگ یہ ساری قتل و غارت میرے کھاتے میں ڈالیں گے۔


ہماری عوام ہے ہی غیر ذمہ دار ،جیسے ہر الٹا کام شیطان کے نامہ اعمال میں ڈال دیتی ہے ویسے ہی آج کل مہنگائی کے لیے ملکی تاریخ کی اب تک کی سب سے صادق اور امین حکومت کو ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے ۔ایسا کرتے ہوئے لوگ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ کوئی اپنی سگی اولاد کے لیے بھی بائیس سال تک رشتے تلاش نہیں کرتا لیکن عوام کے لیے یہ حکومت لانے میں بائیس سال خرچ کیے گئے ہیں۔

یہ حکومت ہے کوئی شیطان تھوڑی ہے کہ ہر برا کام حکومت کے کھاتے میں ڈال دیا جائے کچھ کاموں کی ذمہ داری عوام کو بھی اٹھانی چاہیے ۔موقع پر بارشیں ہوئیں تو ایک وزیر نے ان کو حکومت کے نامہ اعمال میں ڈال دیا ۔ لیکن عوام کے کام دیکھیں جب سیلاب آیا تو اسے بھی حکومت کے کھاتے میں ڈال دیا ۔عوام کم از کسی ایک چیز کو تو اپنے کھاتے میں ڈالے ۔یہ حکومت ہے کوئی بھکارن تھوڑی ہے کہ ہر کام اس کی جھولی میں ڈال دیا جائے ۔

آئی ایم ایف کی بات الگ ہے ۔وہ مہمان ہے اور حکومت مہمان نوازی کر رہی ہے ورنہ اسے بھی سبق سکھایا جا سکتا تھا ۔
بات چلی تھی کہ شیطان نے تو فقط ایک انگلی ہلائی تھی اور لوگوں نے تمام تر قتل و غارت اس کے کھاتے میں ڈال دی ۔ایسے ہی حکومت نے فقط پٹرول مہنگا کیا اور لوگوں نے مہنگائی کی تازہ لہر کی ذمہ داری بھی حکومت کے” توانا“ کندھوں پر ڈال دی ۔

ملک میں کوئی ایک گھی یا چینی کی فیکٹری دکھائیں جو حکومت کی ملکیت ہو؟شہابے مستری نے چیلنج کیا تو ہاشو شکاری نے ہار مانتے ہوئے جواب دیا :جی! حکومت کی اپنی ایک بھی فیکٹری بھی نہیں ہے ۔یہ سن کر شہابے نے کہا: پھر تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ چینی اور گھی حکومت نے مہنگا کیا ہے؟بھئی حکومت نے فقط پٹرول مہنگا کیا ہے ۔باقی کھانے پینے کی چیزیں ، دوائیں ، سفر ، مکان اور دکانوں کے کرائے ، بجلی اور گیس سمیت ملک میں جتنی بھی چیزیں مہنگی ہوئی ہیں وہ حکومت نے بالکل مہنگی نہیں کیں ۔

تم لوگوں نے حکومت کو شیطان سمجھ لیا ہے کیا ؟
ہاشو شکاری دم سادھے یہ گفتگو سن رہا تھا ۔اس نے جانے کا سوچا تو شہابے نے اس کا بازو پکڑ لیا اور اپنی طرف کھینچتے ہوئے بولا :تمہیں پتا ہے کہ حکومت پٹرول کیوں مہنگا کرتی ہے ؟ہاشو نے انکار میں سر ہلایا تو شہابے نے اسے قریب ہی ایک بینچ پر بٹھاتے ہوئے بتایا :کیونکہ حکومت عالمی دنیا کے ساتھ چلنا چاہتی ہے ۔

جب عالمی دنیا میں ڈیزل پٹرول مہنگا ہوتا ہے تو حکومت بھی مہنگا کر دیتی ہے ۔ اب دیکھیں ناں لوگ دن رات یہ کہتے ہوئے تھکتے نہیں ہیں کہ پاکستان کو عالمی سٹینڈرڈ اپناناچاہیے اور جب حکومت ایسا کرتی ہے تو لوگ گالیاں دینے لگتے ہیں ۔کل سے میں لوگوں کے منہ سے ایسی ایسی مغلظات سن رہا ہوں جنہیں ڈکشنریوں سے غائب ہوئے بھی صدیاں بیت چکی ہیں ، یا منافقت تیرا ہی آسرا ۔

ہاشو شکاری بھی پکا پٹواری تھا کہنے لگا:بھائی! حکومت قیمتیں عالمی دنیا کے ساتھ بڑھاتی ہے تو لوگوں کی سالانہ انکم اور سہولیات بھی عالمی دنیا کے لوگوں کے برابر کرد ے ۔شہابے نے اپنی بتیسی کھولی اور مسکراتے ہوئے کہنے لگا :او بھائی ! مجھے فلاسفر سمجھ رکھا ہے کیا ؟میں نے یہ معلومات سوشل میڈیا سے اٹھائی ہیں جہاں بتایا جا رہا تھا کہ پاکستان میں پٹرول کی قیمتیں ابھی تک باقی دنیا سے کم ہیں اور خطے کے باقی ممالک سے تو بدرجہا کم ہیں ۔تم جاوٴ شکار کرو ، مجھے بھی سائیکل کا پنکچر لگوانا ہے اور ہاں! جانے سے پہلے اتنا سن لو کہ میرے سائیکل چلانے کی خبر لیک نہیں ہونی چاہیے ورنہ ہوا پر بھی ٹیکس لگ سکتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :