گمشدہ کتاب کا زندہ سبق

پیر 29 مارچ 2021

Khalid Farooq

خالد فاروق

یونیورسٹی کی لائبریری سے ایک کتاب ہاتھ لگی تھی"قدیم ریاستیں میدان جنگ میں"بدقسمتی سےمجھے اس کتاب کے مصنف کا نام بھول گیا ہے مگر مجھے اس کتاب کا خلاصہ اور اس کتاب کا بنیادی سبق کبھی نہیں بھولے گا۔
اس کتاب میں یونان کی قدیم ریاستوں (ایتھنز، سپارٹا، مقدونیہ) روم اور دوسری قدیم ریاستوں کے عروج و زوال کی کہانی درج تھی۔

ریاستوں کے عروج کی وجوہات چاہے مختلف تھیں۔ مگر ان کے زوال کی وجہ ہمیشہ ایک ہی رہی۔ اور وہ وجہ یہ تھی کہ جب بھی کسی ریاست کی فوج اور عوام کا آپس کا تعلق کمزور پڑتا،ایک دوسرے کے متعلق بد اعتمادی پیدا ہوتی وہ ریاست یا تو صفحہ ہستی سے ہی مٹ جاتی یا پھر کسی حریف ریاست کے زیر نگوں ہو جاتی۔ کتاب کے مطابق زیادہ تر ریاستوں سے بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے سمجھا کہ اگر ان کی فوج دشمن کی فوج سے زیادہ اچھی اور طاقتور ہوگی تو وہ ہمیشہ عروج پر رہیں گے۔

(جاری ہے)

اور اس مقصد کے لیے انہوں نے عوام کو غلاموں کی سی حیثیت دیے رکھی۔ اور ان پر بےجا ٹیکس لگائے عوام سے دولت اکٹھی کر کے فوج پر لگائی اور فوج کو مضبوط کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یا تو عوام خود ہی فوج سے متنفر ہو گئے اور فوج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے یا پھر دشمن فوج کی آمد پر دشمن کی مدد کی یا پھر اپنی فوج کی کوئی مدد نہ کی۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ فوج جس علاقے میں لڑ رہی ہو اگر وہاں کی عوام اس فوج کا ساتھ نہ دے تو قابل سے قابل جرنیل بھی حواس کھو بیٹھتے ہیں۔

اور اعلٰی سے اعلٰی فوج بھی گیدڑوں کا ہجوم ثابت ہوتی ہے اور اسے عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کہیں مت جائیں 1971 کی مشرق پاکستان کی مثال سب کے سامنے ہے۔ مزید کچھ ریاستوں نے یہ غلطی کی کہ یا تو انھوں نے زبردستی لوگوں کو فوج میں بھرتی کیا یا پھر کرائے کے قاتل (جنگجو) جو ریاست کے اصلی باشندے نہ ہوتے ان کو تنخواہ اور مال و دولت کا لالچ دے کر فوج میں بھرتی کیا۔

مگر جب میدان کارزار میں وفاداری نبھانے کا وقت آیا تو زبردستی کے اور دولت کے لالچ میں بھرتی کیے گئے فوجی وفاداری کا بھرم نہ رکھ سکے اور میدان چھوڑ گئے۔ نتیجتاً ان کی فوج اور ریاست کو وہ قیمت چکانی پڑی جو تاریخ کا حصہ بن گئی۔
کل ملا کے بات یہ ہے کہ فوج چاہے جتنی بھی طاقتور، جنگی مہارت کی حامل اور جدید ہتھیاروں سے لیس ہو لیکن اگر اسے اپنی عوام کی مدد اور اعتماد حاصل نہ ہو تو اس فوج اور اس ملک کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔

اور بعض اوقات اس کے لئے کسی بیرونی حملہ آور کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے لیے اس ملک یا ریاست کی اپنی پسی ہوئی عوام ہی کافی ہوتی ہے۔ جب کسی کو ڈرایا جاتا ہے تو ڈرنے والے کا رد عمل (ری ایکشن) بعض اوقات ڈرانے والے کو بھی ڈرا کے رکھ دیتا ہے۔ جب عوام یہ سمجھنے لگیں کہ ان کی فوج ان کی حفاظت کرنے، ان کو مضبوط بنانے کے بجائے اپنے آپ کو مضبوط کرنے اور عوام کو ڈرانے میں لگی ہوئی ہے تو پھر زیادہ عرصہ عوام فوج کا ساتھ نہیں دیتے۔

وہ کسی نہ کسی ایسے راستے کی تلاش میں سرگرداں ہو جاتے ہیں جو انہیں اس گھٹن اور مصیبت سے آزادی دلوائے۔ پھر چاہے وہ اندرونی بغاوت ہو یا پھر بیرونی حملہ آوروں کی مدد عوام اپنی فوج کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں اور یہی تاریخ میں بار بار ہوا ہے۔ مگر تاریخ کا سب سےبڑا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کسی نے سبق نہیں سیکھا۔ کبوتر کی طرح موجودہ صورتحال سے آنکھیں بند کرنے سے گزارہ نہیں ہوگا۔

آنکھیں کھول کر چندھیا دینے والی حقیقت کا ادراک کرنا ضروری ہے کہ عوام اب کس نہج پہ سوچ رہے ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف عدالتی فیصلے پر فوج کا جو ردعمل سامنے آیاہے ۔ وہ اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ فوج صرف اور صرف خود کو مضبوط بنانا چاہتی ہے۔ فوج چاہتی ہے کہ کوئی ادارہ ان سے کسی قسم کی پوچھ گچھ نہ کرے وہ شتر بے مہار بن کے رہیں۔

آج کے دور میں تو یہ ناممکن ہے۔پرویز مشرف جنہیں اقتدار سے رخصت ہوئے 12 سال ہوگئے ہیں فوج ان کی حمایت میں ایسے کھڑی ہوئی جیسے وہ فوج کے موجودہ آرمی چیف ہوں۔ یاد رہے کہ فوج کی اصل طاقت اور اثاثہ عوام ہیں پرویز مشرف نہیں۔ اگر یہی روش جاری رہتی ہے کہ فوج حکومت اور عدلیہ پر اتنا دباؤ رکھے کہ وہ فوج کے خلاف یا کسی سابق فوجی حکمران کے خلاف کوئی اقدام یا فیصلہ نہ کرسکے تو پھر عوام کوئی نئی راہ ڈھونڈنے چل نکلیں گے۔

پھر عوام کو یہ سروکار نہ رہے گا کہ آپ کی فوج نے غزوہ ہند لڑنی ہے یا پاکستان کو سپر پاور بنانا ہے۔ عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے لازمی ہے کہ عوام پر اور عوامی اداروں پر بھی اعتماد کیا جائے۔ مزید کچھ کہنے کی جسارت مجھ میں نہیں ہے۔
آخر میں مشہور زمانہ فرانسیسی فلسفی والٹیئر کا فقط ایک قول"اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ پر حکومت کون کرتا ہے تو یہ دیکھیں کہ کون تمہیں خود پر تنقید نہیں کرنے دیتا"
نوٹ: یہ کالم پرویز مشرف کو خصوصی عدالت سے سزائے موت سنائے جانے کے بعد لکھا گیا۔ مگر بعد میں لاہور ہائی کورٹ نے اس سزا کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :