سرہند کا فیض

منگل 11 دسمبر 2018

Khalid Imran

خالد عمران

پیر پندرہ اکتوبر کی شام تھی جب قاضی احسان احمد مبلغ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا پیغام ملا کہ میرے والد قاضی فیض احمد انتقال کرگئے ہیں، نماز جنازہ کل منگل سولہ اکتوبر کو بعد ظہر ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ادا کی جائے گی۔
قاضی صاحب کو فون کیا تو رندھی ہوئی آواز میں انہوں نے بتایا کہ میں تو کوئٹہ تھا، وہاں سے نکل چکا ہوں۔ فون پر جس طرح کی تعزیت ممکن تھی، وہ کی۔


فون بند کیا تو غلہ منڈی ٹوبہ ٹیک سنگھ میں لکڑی کے بڑے بڑے دروازوں والی آڑھت، جامع مسجد بلال، اقبال نگر والا گھر، فیصل آباد کے ریگل روڈ پر ادارہ پیغام حج اور چناب نگر کانفرنسوں کے مناظر کی فلم سی چلنا شروع ہوگئی۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے چودھری عبدالرحمن، چودھری علی محمد بیکری والے، مولانا عمر لدھیانوی، مولانا احمد سعید لدھیانوی رحمہم اللہ اور قاضی غیاث الدین جانباز مرحوم (جو کسی دور میں پاکستان پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کونسل کے رکن، مولانا بھاشانی کے ساتھی اور انقلابی شخصیت کی حیثیت سے معروف تھے) کے چہرے نظروں میں گھوم گئے۔

(جاری ہے)

جانباز صاحب قاضی فیض صاحب کے ماموں زاد تھے۔
جامع مسجد بلال غلہ منڈی کے دروازے سے طلوع ہونے والے وجیہہ مولانا عبداللہ لدھیانوی (اللہ پاک انہیں صحت عافیت عطا فرمائے آمین) ملک منور، ان کے بھائی، قاضی امتیاز، قاضی انور کی یاد آئی۔
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت یا اہل حق کا کسی بھی قسم کا کوئی پروگرام ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہو یا خواجہ خان محمد رحمة اللہ علیہ کا آنا ہوتا۔

قاضی فیض صاحب کسی نہ کسی انداز میں متحرک ہوتے، اکثر مہمان علماء کی میزبانی کا شرف انہیں حاصل ہوتا۔ تایا جان حاجی خلیل احمد لدھیانوی اور قاضی صاحب(رحمہما اللہ تعالیٰ) کی بے تکلفی کا تعلق درون خانہ تک تھا، دونوں ایک دوسرے کے گھریلو اور خاندانی معاملات میں مشیر ومعاون تھے۔ خوشی غمی کے معاملات ہوں یا دیگر مسائل فیصل آباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں فونوں کی گھنٹیاں بج اٹھتیں۔

فون پر تسلی نہ ہوتی تو ایک دوسرے کے پاس پہنچنے کی سعی کی جاتی۔ آنے والے دور میں تعلق ووضع داری کے اس طرح کے مناظر کہاں دیکھنے کو ملیں گے۔ بقول رانا انور صاحب (سرکولیشن منیجر ہفت روزہ ختم نبوت کراچی) گئے دور میں جماعتی تعلق خاندان اور رشتہ داری سے بڑھ کر ہوتا تھا، اس دور کے راہنما اور قائدین بھی اپنے کارکنوں کو اولا د سے بڑھ کر سمجھتے تھے۔

وضع دار قاضی فیض احمد نے اس تعلق کو آخر دم تک نبھایا۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہ تعلق اگلی نسل کو بھی منتقل ہوا۔
حضرت خواجہ خان محمد رحمة اللہ علیہ کا ٹوبہ ٹیک سنگھ کا پروگرام بنتا تو قاضی صاحب مرحوم فوراً تایا جان کو اطلاع کرتے، چناب نگر کانفرنس اور اس سے پہلے چنیوٹ کانفرنس میں جانا ہوتا تو دونوں کی کوشش ہوتی کہ اکٹھے جایا جائے۔
قیام پاکستان کے بعدامامِ ربانی مجد د الف ثانی رحمة اللہ علیہ ،جن کے متعلق اقبال # مرحوم نے کہا تھا #
وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہبان
گردن نہ جھکی جس کی جہاں گیر کے آگے
انھی مجددصاحب کی سرزمین سرہند سے آکر ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بسنے والے قاضی خاندان کے نوجوان فیض احمد کی ملاقات تحریک تحفظ ختم نبوت 1953ء سے پہلے یا بعد قاضی احسان احمد شجاع آبادی رحمة اللہ علیہ سے ہوئی۔

پھر یہ تعلق بڑھتا گیا حتیٰ کہ انہوں نے قاضی فیض احمد کو اپنا منھ بولا بیٹا بنا لیا۔ نوجوان فیض احمد کو سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا خیرمحمد جالندھری اور دوسرے اکابر رحمہم اللہ کا قرب حاصل ہوا، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی مجلس کی شوریٰ کے رکن بنے اور آخر تک یہ فرض نبھایا۔ قاضی صاحب عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی مرکزی شوریٰ کے سب سے معمر رکن اور مالیاتی کمیٹی کے سربراہ تھے۔

مالیاتی کمیٹی کے لیے ان کا انتخاب مولانا محمد علی جالندھری رحمہ اللہ نے کیا تھا۔
قاضی فیض احمد صاحب کو ملک بھر کے کتنے ہی اکابر واصاغر علماء کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا، لیکن جس خوشی اور چاوٴ کے ساتھ وہ حضرت خواجہ خان محمد رحمة اللہ علیہ کی میزبانی کرتے، اسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ حضرت کے ساتھ آنے والے تمام مہمانوں کی خاطر مدارت میں بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے اور حضرت رحمة اللہ علیہ کے آرام وطعام میں ہر طرح کی سہولت کی فراہمی ممکن بنانے کی کوشش کرتے۔

یوں لگتا کہ قاضی فیض احمد صاحب کی زندگی کا مقصد ہی مرشد کی میزبانی ہے۔ قاضی صاحب مرحوم کی خدمات کی قبولیت کا منظر ان کے جنازے پر نظر آیا۔نماز جنازہ کی امامت ولی ابنِ ولی خواجہ عزیز احمد مدظلہ نائب امیر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے فرمائی اور بلامبالغہ ہزاروں افراد جنازے میں شریک ہوئے۔ اور پھر بعد میں ملک وبیرون ملک کتنے ہی علماء وطلبہ نے ان کے لیے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کی۔
قاضی فیض احمد رحمة اللہ علیہ نے عمر بھر دین اور اہلِ دین کی عزت وعظمت کے لیے جو کوشش کی، اللہ رب العزت نے اس کے نتیجے میں ان کی اولاد بالخصوص قاضی احسان احمد کی شکل میں ان کے لیے صدقہ جاریہ کا انتظام کردیا۔ اللہ نظربد سے بچائے۔ آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :