ہم بھی حاضر تھے وہاں!

بدھ 23 جنوری 2019

Khalid Imran

خالد عمران

مولانامحمد ضیاء القاسمی رحمة اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ قرآن اپنا راستہ خود بناتا ہے۔ اسی لیے وہ درسِ قرآن کے حلقوں کے اجراء پر بہت زور دیا کرتے تھے۔ گزشتہ دنوں ہمیں درسِ قرآن کے حلقے میں جانے کا اتفاق ہوا اور حضرت قاسمی رحمة اللہ علیہ کے اس قول کی صداقت سامنے آئی۔ علاقہ تھا ملیر کینٹ اور مقام تھا مسجد توحید۔ جہاں ساڑھے سات برس پہلے درسِ قرآن کا آغاز ہوا اور اب اللہ کے فضل وکرم سے یہاں اس درسِ قرآن کے اولین دور کی تکمیل کی تقریب تھی۔

توحید مسجد کے امام وخطیب اور درسِ قرآن کے مدرس مولانا عبدالجبار طاہر نے مدعو کیا تو جانا لازم ٹھہرا کہ انہیں ہم سے اللہ واسطے کا اُنس ہے۔
محدثِ جلیل حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری اور حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن رحمہمااللہ تعالیٰ کے شاگرد مولانا قائم الدین لدھیانوی رحمہ اللہ کے نواسے اور حافظ محمد صدیق کے فرزند عبدالجبار نے حفظِ قرآن اور تجوید کی تعلیم ملتان میں خیرالمدارس سے مکمل کی، درسِ نظامی کا آغاز مدرسہ عمربن خطاب رضی اللہ عنہ مولانا کریم بخش کے پاس کیا اور تکمیل مولانا محمد نوازکے جامعہ قادریہ سے کی۔

(جاری ہے)

تخصص فی الافتاء کے لیے جامعة الرشید کراچی کا رخ کیا تویہاں سے وہ مفتی عبد الجبار طاہر بن کرنکلے۔
 آٹھ برس پہلے مفتی عبدالجبار طاہر کا تقرر ملیر کینٹ کی توحید مسجد میں بطور امام وخطیب ہوا۔ اس مسجد کا ماحول یوں منفرد تھا کہ یہاں کے نمازی ہر مسلک ومکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے اور عصری تعلیم یافتہ تھے۔ نوجوان اور بچے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے طلبہ، جوان اور ادھیڑ عمر، سول و عسکری اداروں کے ملازم اور بزرگ بھی تقریباً انہی اداروں کے ریٹائرڈ اعلیٰ تعلیم یافتہ۔

ایسے ہی لوگ بریگیڈیئر (ر) صلاح الدین صاحب کی زیرِصدارت مسجد کمیٹی میں خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ اس رجمنٹل ماحول میں مفتی عبدالجبار طاہر نے اپنے فرائض منصبی کی ادائی شروع کی۔ ایک خاص طرز کی بستی کا ماحول دینی مدرسے کے فارغ التحصیل کے لیے بالکل اجنبی تھا، لیکن اشاعتِ علمِ دین جب مقصد ہو تو ماحول موافق بن جاتا ہے اور رکاوٹیں دور ہوجاتی ہیں۔

ساری زندگی قرآن کی خدمت کرنے والے ماں باپ کی دعائیں، اساتذہ کی شفقت ومشاورت ان کے شامل حال تھی۔ ساڑھے سات برس پہلے یعنی اپنی تقرری کے چھ ماہ بعد مولانا عبدالجبار طاہر نے توحید مسجد میں درسِ قرآن کا آغاز کیا تو ان کے سامنے قرآن پاک کھول کر بیٹھنے والوں میں روایتی نمازی ہی نہیں بلکہ آرمی، ایئرفورس ونیوی اور سول محکموں کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی شامل تھے۔

درسِ قرآن کے ساتھ ساتھ درسِ حدیث اور عربی گرامر کی تعلیم کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ یوں توحید مسجد قرآن وحدیث کی درسگاہ بن گئی۔
تکمیلِ درسِ قرآن کی مذکورہ تقریب عشاء کے بعد شروع ہوئی۔ مولانا عبدالجبار طاہر نے معوذتین کا ترجمہ وتشریح اور فضائل مختصراً تعلیم کیے۔ پھر ساتھ ہی سورہٴ فاتحہ پڑھ کر اگلے دور کا آغاز کیا۔ بریگیڈیئر (ر) فیوض الرحمن جن کا اسم گرامی اوائل عمر سے ہی پڑھنے سننے میں آرہا ہے، انہوں نے دعائے خیر سے پہلے سادہ مگر دل نشیں انداز میں درسِ قرآن کی اہمیت پر روشنی ڈالی، شرکاء، نمازیوں اور مدرس کو خراج تحسین پیش کیا، سب کے لیے نیک تمناوٴں اور ملک میں اسلام کے نفاذ کی خواہش کا اظہار کیا۔


تقریب کے بعد کھانے کی میز پر ہمارے ساتھ بریگیڈیئر (ر) فیوض الرحمن، مولانا زاہدالراشدی، ان کا پوتا جو شاید اب اپنے دادا کی امیدوں کا مرکز ہے، ماہنامہ وفاق المدارس کے مدیر مولانا محمد احمد حافظ، معروف کالم نگار و ہفت روزہ ضرب مومن کے ایڈیٹر انور غازی، ہفت روزہ شریعہ اینڈ بزنس کے ایڈیٹر مولانا عبدالمنعم فائز اور روزنامہ اسلام کے ایڈیٹوریل انچارج مولانا شفیع چترالی موجود تھے۔

یہاں انورغازی نے بتایا کہ آج ایک وزیر بے تدبیر نے روٴیت ہلال کمیٹی ختم کرکے چاند کا معاملہ محکمہ موسمیات کے سپرد کرنے کی اطلاع دی ہے۔ مولانا زاہدالراشدی کا کہنا تھا کہ ایسا کرنا حکومت کے لیے شاید ممکن نہ ہو۔ مولانا محمد احمد حافظ نے کہا کہ کمیٹی ختم نہ کی جائے، اگر حکومت کو مفتی منیب صاحب سے کوئی مسئلہ ہے تو مفتی عبدالقوی کو کمیٹی کا چیئرمین بنادیا جائے۔

انور چراغ کا کہنا ہے کہ چاند دیکھنا ہے، چڑھانا نہیں۔ یہاں مولانا شفیع چترالی حسبِ عادت”آپ لکھا کریں“ کہہ کر بریگیڈیئر (ر) فیوض الرحمن صاحب کو روزنامہ اسلام کے ادارتی صفحے کے لیے لکھنے کی ترغیب دیتے پائے گئے۔
ایمان پرور تقریب کے بعد ون ڈش کھانے پر ہم نشینوں کی ہلکی پھلکی گفتگو اور پھر مولانا زاہدالراشدی کے مختصر مگر جامع کلام نے چاند کی پہلی رات کو یادگار بنادیا۔

یہاں مولانا عبدالجبار طاہر کے متعدد شاگردوں نے اپنا سبق سنایا تو پتا چلا کہ اپنے اپنے محکموں سے اعلیٰ پوسٹوں سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی انہوں نے اپنے اندر کے طالب علم کو زندہ رکھا اور قرآنی تعلیم سے وابستہ ہوکر اپنی آخرت کا سامان کرنے کی کوشش کی۔ توحید مسجد کے حلقہٴ درس کے شرکاء نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ”علم حاصل کرو، ماں کی گود سے قبر کی لحد تک“ پر عمل کی جو سعی کی، اس کا اجر تو اللہ پاک ہی دیں گے لیکن دنیا میں ان کے گھروں اور قرابت داروں کے ساتھ ساتھ ماحول پر اس کے جو مثبت اثرات مرتب ہوں گے، وہ بھی ان شاء اللہ ان کے لیے اخروی نجات کا سبب ہوں گے۔

درس کے شرکاء نے امید ظاہر کی کہ آج آغاز کیے گئے درسِ قرآن کے سلسلے کی تکمیل ان شاء اللہ تعالیٰ اب ساڑھے سات برس سے بہت پہلے ہوگی۔
گھر کی راہ لیتے ہوئے ہمارے کانوں میں شیخ الہند مولانا محمودحسن رحمة اللہ علیہ کا وہ فرمان گونج رہا تھا جو علماء واکابر سے بارہا سنا کہ میں نے مالٹا کی جیل میں بہت غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ امت کے زوال کا سبب قرآن مجید سے دوری اور آپس کا انتشار وافتراق ہے۔ آج بھی اگر امت قرآن سے جڑ جائے تو نہ صرف انتشار وافتراق ختم ہوسکتا ہے بلکہ زوال بھی عروج میں بدل سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :