سیاسی کرونا

جمعہ 11 دسمبر 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

اپوزیشن کی تحریک آخری مرحلہ میں داخل ہورہی ہے،معرکہ لاہور کے بعد لانگ مارچ کی دھمکی اور بعد ازاں اجتماعی استعفوں کا معاملہ سرکار کے اعصابی تناؤ کا ایک امتحان ہے،قوم کی نظریں اس احتجاجی تحریک پر لگی ہوئی ہیں،جس کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے،سرکار تمام عوامی مشکلات کو اپوزیشن کے پلڑے میں ڈال رہی ہے اسکو ذمہ دار گردانتی ہے،مگر اپوزیشن سرکار کو نہ صرف معاشی ابتری بلکہ پورے سیاسی نظام میں منافرت لانے کاالزام حکومتی کارندوں پر دھر رہی ہے، ان حالات میں بڑی پریشانی تو عوام کو ہے،نوجوانان کو بے روزگاری کا سامنا ہے،تاجر شکوہ کناں کہ کاروباری سرگرمیاں سست روی کا شکار ہیں، ہرچند اس کا سبب کرونا بھی ہے،مگر نصف پارلیمانی مدت کی تکمیل کے بعد بھی سرکار کوئی معاشی سمت متعین نہ کر سکی، صنعت کا پہیہ گھومنے سے قاصر ہے،برآمدات میں کمی ہوئی ہے ،کسان، تاجر، سرکاری ملازمین سراپا احتجاج ہیں، یہ صورت حال سرکار کے لئے اس ماحول میں مزید پریشان کن ہوسکتی ہے اور اپوزیشن کے لئے معاون بھی ۔

(جاری ہے)


سماج کے سنجیدہ حلقے اس ناگفتہ بہہ صورت حال پر دل گرفتہ ہیں، کیا محض سرکار کو گھر بھیجنا ہی اپوزیشن کا مقصد ہے؟ اس کی تحریک کا قومی ایجنڈا ابھی تک سامنے آیا ہی نہیں تو عوام یہ کیسے اخذ کریں کہ احتجاجی تحریک عوام کے لئے کارفرما ہے،اگر اپوزیشن منصفانہ انتخاب کا انعقاد چاہتی ہے،تو اس کے لئے ایک بااختیار الیکشن کمیشن کا قیام ہی لازم ہے،اس کاراستہ مذاکرات سے ہی ہو کر گذرتا ہے،جماعت اسلامی کے امیر محترم سراج الحق نے بھی اپوزیشن کی تحریک کو بے سمت قرار دیا اور کہا کہ وہ کوئی ایجنڈا سامنے لائیں تواس پر بات چیت ممکن ہے ان کے خیال میں اس وقت قومی سیاسی قیادت کو مل کر بیٹھنا ہے تاکہ تمام مسائل کا پرامن حل نکالا جا سکے،اس وقت افراتفری دونوں کے مفاد میں نہیں ہے، لہذا حکومت کو بھی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہنے کو اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے،بلکہ گفت وشنید سے سیاسی حل کی طرف آگے بڑھنا ہوگا،اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ موجودہ حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے جس نے اپوزیشن کو سڑکوں پر آنے کا موقع فراہم کیا ہے، کپتان کی طرف سے یہ تکرار کہ وہ کسی کو این آر او نہیں دیں گے تب ہی مقبولیت حاصل کر سکتا تھا جب بدعنوان افراد سے لوٹی ہوئی رقوم بھاری مقدار میں وآپس مل جاتیں مگران کے احتساب پر تو انگلی اٹھائی جارہی ہے،سرکار کے وزراء کرام بھی الزامات کی زد میں ہیں۔


ایشائی ترقیاتی بنک کی ایک چشم کشا رپورٹ سرکار کی کارکردگی کو عیاں کر رہی ہے، اگرچہ اس میں قصور سابقہ ارباب اختیار کا بھی ہے لیکن اس کی سزا عوام کو ملی ہے اور وہ ترقیاتی منصوبہ جات جو عوامی فلاح کی بابت تھے جس کے لئے سرمایہ مذکورہ بنک نے فراہم کیا تھا اس کی انتظامیہ نے حکومتی اداروں کی عدم دلچسپی پر اظہار تعجب کیا ہے،پانی، زراعت، پبلک سیکٹرمینجمنٹ، توانائی،مالیات، ٹرانسپورٹ،قدرتی وسائل، خدمات،عوامی سہولیات کے منصوبہ جات عدم تکمیل کا شکار رہے، اس اعتبار سے جو اصلاحات لازم
 تھیں ان سے بھی صرف نظر کیا گیا یوں ہمارے اداروں نے ایک بڑے بہی خواہ اور فنانشل معاون ادارہ کے اعتماد کو ضعف پہنچا کر مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا ہے، نجانے اس کوتاہی پر کپتان نوٹس لیں گے بھی یا اسکو بھی سابقہ حکومت کی کارستانی قرار دیں گے۔

موجودہ کاروائیوں سے یوں لگتا ہے کہ ہمارا سیاسی سفریو ٹرن سے ستر کی دہائی میں داخل ہو رہا ہے ، ریاست کے ایک حصہ کو کھوہ کر بھی اگر ہماری قومی قیادت سبق سیکھنے سے نابلد ہے تو پھر عوام سے شکوہ کیسا؟ کہ وہ کرونا کی دوسری لہر میں محتاط رویہ اختیار نہی کر رہی ہے،یہ تو عارضی معاملہ ہے، جلد یا بدیر اس وباء کو تو رخصت ہونا ہی ہے لیکن سیاسی بدامنی کے دور رس نتائج کے اثرات شدت سے محسوس کئے جائیں گے،سرکار اور اپوزیشن کے رویہ جات کو نسل نو تب ہی اچھی نگاہ سے دیکھے گی جب دونوں عوام کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کریں گے۔


ہمارا سیاسی کلچر کوئی اچھی شہرت نہیں رکھتا،سیاست جو دراصل خدمت کی اعلیٰ شکل ہے بری طرح سے بدنام ہے،اسکی نیک نامی میں اضافہ کرنا اپوزیشن اور سرکار کی یکساں ذمہ داری ہے،عالمی حالات تیزی سے بدل رہے ہیں، معاشی معاملات کسی سے پوشیدہ نہیں ہماری خود انحصاری کی منزل کوسوں دور ہے، اور ہماری سرکار کو مالی معاملات کے لئے دوسروں پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے،اس سے خارجی اورداخلی پالیسوں پر دباؤ بڑھنا بھی لازمی امر ہے۔


 اس وقت مسلم امہ عرب اسرائیل تعلقات کے تناظر میں خاصی فکر مند ہے،چند ممالک جن میں وطن عزیز بھی شامل ہے اپنے درینہ موقف پر قائم ہیں،اسرائیل کا مثالی تعلق ہمارے ازلی دشمن بھارت سے ہے، کشمیر پر ہمارا موقف اصولی ہے لیکن اس محاذ پر کون کون ہمارے ساتھ ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، عرب امارات نے ویزہ جات پر پابندی عائد کر کے ہماری ورکر فورس کے لئے دروازے بند کئے ہیں، یہ نوشتہ دیوار ہے کہ کچھ قوتیں ہمارے خلاف عالمی سطح پر متحرک ہیں،اس نازک وقت میں اپوزیشن اور حکومت کو دور اندیشی ، تحمل، قوت برداشت کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے ،مل بیٹھ کر معاملات کو سلجھانا ہوگا، اس مرحلہ پر مقتدر اداروں کو بھی غیر جانب دار رہ کر وہ ماحول فراہم کرنا ہو گا تاکہ سیاسی قیادت باہم شکوہ شکایت کے بعد کوئی ٹھوس اور دیرپا حل نکالنے میں کامیاب ہو جائے،جس میں اولیت معاشی معاہدہ اور منصفانہ انتخابات ہی کو حاصل ہو، یہی عوام اور اپوزیشن کے مطالبات ہیں اور اس میں ہی حکومت کی نجات ہے۔

ورنہ ہٹ دھرمی سیاسی کرونا ثابت ہوگی یہ ریاست اب اسکی متحمل نہیں ہوسکتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :