تلاش

جمعرات 14 جنوری 2021

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ہمارے کپتان کی جو صفات انھیں دیگر سے ممتاز کرتیں ہیں۔وہ ان کے دل کا صاف ہونا اور عوام کا درد رکھنا ہے،ہم نے اپنی حیاتی میں ایسا احساس رکھنے والا پہلا سیاسی قائد ہی دیکھا ہے،جس میں عوامی خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہواتھا، ظلم اور جبر ان سے دیکھا ہی نہیں جاتا تھا،نہ ہی وہ عوام کی بے بسی کو برداشت کرتے تھے،مہنگائی، بے روزگاری پرَ تو اِنکا دل ہی بیٹھ جاتا تھا ،وہ حیران ہوتے کہ کس طرح بیچارے غریب عوام سسک کر زندگی گذار رہے ہیں،وہ ان تمام افراد کو مجرم گردانتے تھے جو انکی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں، انھیں وہ بااختیار ،صاحب ثروت لوگ سخت نا پسند تھے جو بدعنوانی سے اپنی املاک میں تو روز بروز اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں مگر عوام کی خبر نہیں لیتے، کسی بے گناہ انسان کو بے دردی سے قتل پر تو وہ آپے سے باہر ہو جاتے اور برملا کہتے کہ اسکا مقدمہ حاکم وقت کے خلاف درج ہونا چاہئے ،انکے فرمودات بتدریج عوام میں شرف قبولیت حاصل کرتے رہے،انکی مقبولیت اس مقام پر آکھڑی ہوئی کہ میڈیا اِنکو مستقبل کا حکمران ہی سمجھ بیٹھا تھا،ان سے بلا تکلف رائے لیتے تھے کہ جب اقتددار کا ہما ان کے سر پر بیٹھے گا تو وہ کس طرح حکمرانی کریں گے،وہ برملا اپنی پالیسی بیان کرتے، عالمی،قومی میڈیا کو دیئے گئے ماضی کے بیانات ،ارشادات،احکامات پر مشتمل انکی وڈیوز اسکی شہادت دیتی ہیں۔

(جاری ہے)


اللہ کاکرنا ایسا ہوا کہ وہ شہر اقتدار میں ملک کے سربراہ بن گئے،اِسی شہر جسے” سیف سٹی “کہا جاتا ہے میں گذشتہ دنوں ایک نوجوان انسداد دہشت گردی فورس کے ہاتھوں لقمہ اجل بن گیا جب رات کی تاریکی میں اسکی گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی دارلخلافہ کی سڑکوں پر جارہی تھی،طالب علم یہ سمجھ بیٹھا کہ جب ریاست جان مال کے تحفظ کی ضمانت دیتی ہے تو پھر ڈر کیسا؟ کیونکہ یہ شہر اور ملک تو اپنا ہی ہے، اسے کیا معلوم تھا کہ وہ مجرم بھی ہے، لیکن اِسکی خوش فہمی اس وقت دور کر دی گئی، جب ڈیوٹی پر مامور افراد نے گاڑی نہ روکنے پر اس کے سینے میں گولیاں اُتار دیں، شائد اِس طرح کے سلوک کی نسبت کا تعلق اِس شاہراہ سے تھا جس کانام سرکار نے اہل کشمیر کی محبت میں سری نگر رکھ دیا تھا،نجانے اِس شاہراہ کے نام کا دباؤ تھا،یا اس شہر کی دہشت تھی کہ اہل کار اپنے جذبات قابو میں نہ رکھ سکے اور کسی ماں کے لال کو موُت کی نیند سلادیا، اِنھیں بھلا ایک نہتے لڑکے سے کیا خوف ہو سکتا تھا،رات کے آخری پہر میں وہ کونسی دہشت گردی کا مرتکب ہو سکتا تھا، گاڑی نہ روکنا اتنا سنگین جرم تو نہ تھا کہ اس سے بندوق ہی کی زبان میں بات کرنے کو لازم سمجھا گیا۔


ہمارے سماج سے تعلق رکھنے والے یہ اہلکار نہیں جانتے کہ کس مشکل سے مائیں بچوں کی پرورش کرتی ہیں،یہ والدین کی اُمیدوں کا مرکز اور بڑھاپے کا سہارا ہوتے ہیں، بہنوں کا مان اور ماؤں کے لاڈلے یہ بیٹے اللہ کی بڑی نعمت ہوتے ہیں،کیا اہلکار اس حقیقت
 سے نا آشنا تھے کہ بندوق کی گولی کسی کی جان لے سکتی ہے، یہ کسی فلم یا ڈرامہ کی شوٹنگ تو نہ تھی ۔


کاش وہ خود کو اس مقام پر رکھ کر دیکھ لیتے کہ ان کا لخت جگر اگر اِسی وقت گاڑی میں اِکیلا جارہا ہوتا اور کوئی ان کے بچے کا ساتھ وہی سلوک کرتا جو انھوں نے اس مقتول طالب علم سے کیا ہے تو اِنکے دل پے کیا گذرتی ،کیا افسران بھی سینے میں دل نہیں رکھتے، یا شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری انکو غیر قانونی اقدامات پر مجبور کرتی ہے۔
ایک برس ہوتا ہے، ملک کے تعلیم یافتہ شہر کراچی کی ایک طالبہ بھی اِسی طرح پولیس کی گولی کی نذر ہوجاتی ہے،اس کا جرم یہ تھا کہ وہ
 یتیم تھی اس کے پاس حکمرانوں کی طرح بلٹ پروف گاڑی نہ تھی نہ خاندان کے پاس عام گاڑی کی سہولت تھی، طالبہ کی والدہ ایک پرائیویٹ سکول میں ملازمت کرتی تھی اِس اُمید پر زندہ تھی کہ اِس کی بیٹی ڈاکٹر آف پتھیالوجی کے آخری سال سے فراغت پا کر اس کا سہارا بنے گی اوراسکا بڑھاپا آسانی سے گذر جائے گا لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ سامراج مزاج کی حامل پولیس اسکی بیٹی کی جان لے گی،جس ورز اِس نے زندگی کی آخری سانس لی اِس دن اسے فیملی کے ایک فنکشن میں جانا تھا مگر اسے یونیورسٹی ضروری کام سے جانا پڑا، وآپسی پر اس کا رکشہ ایک شاہراہ پر فراٹے بھرتا جارہا تھا کہ تڑتڑ کی آوازیں آنے لگی، ڈرائیور نے فوراً رکشہ روک لیا معلوم ہوا کہ شہر کی معروف شاہراہ پر پولیس اور ڈاکووں کے مابین مقابلہ جاری ہے، اسی اثناء ایک درد بھری آواز رکشہ سے نمودار ہوئی،اور خون سے لت پت یہ طالبہ گھر جانے کی بجائے ہسپتال پہنچ گئی، میڈیا کے مطابق یہ بے چاری اس مقابلہ کی زد میں آگئی۔


سر بازار پولیس مقابلہ کرنے میں کیا حکمت ہے یہ تو قانون نافذ کرنے والے ہی جانتے ہیں، نِہتے شہریوں کو گولیوں کے رحم و کرم پر کیوں چھوڑا جاتا ہے، گولی سے مخاطب کرنے سے پہلے بالمشافہ بات کرنے میں کون سے خطرات حائل ہوتے ہیں ،روای اس بابت خاموش ہے، سانحہ ساہیوال ہو، یا اقتدار شہر میں طالب علم کی ہلاکت، کراچی میں طالبہ کی َاندھی گولی سے موت کا معاملہ ہو اس میں ایک قدر تو مشترک ہے کہ ان کو انسان سمجھ کر ان سے بات کرنا گورا کر لیا جاتا تو نہ صرف اِن مظلوم شہریوں کی جان بچ سکتی تھی، بلکہ اصل حقائق بھی سامنے آجاتے ۔


کیا والدین اس لئے بچوں کو جنم دیتے ہیں کہ وہ سیکورٹی فورسز کی گولی کا ایندھن بنیں، انکے والدین نے انکے بہتر مستقبل کے لئے بڑے شہروں کا انتخاب کیا تھا، جہاں سہولیات تو میسر ہوتی ہیں مگر تحفظ نہیں، وہ تو اپنے ہی دیس میں اجنبی ٹھہرے ۔
بیچاری عوام اِسی سربراہ مُلک کی تلاش میں ہے جواقتدار میں آنے سے قبل قوم کے غم میں ہلکان ہواکرتے تھے، ہمارے کپتان نجانے کب اِن وڈیو ز اور اپنے بیانات سے رجوع کریں گے جو عوام میں مقبول تھے تاکہ وہ سیکورٹی فورسز کو یہ تو سمجھا سکیں کہ مٹی کے پتلے اور زندہ انسان میں زندگی کا فرق ہی تو ہوتا ہے ، سیکورٹی فورسز کے سامنے جس کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :