کسان تحریک

منگل 9 فروری 2021

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

وہ تمام سماج جن کی معشیت زراعت سے وابستہ ہے،اس میں کسان کے مرکزی کردار کو کسی طور پر بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے، زرعی پیداوار میں اسکی محنت، لگن نہ صرف قابل ذکر ہے بلکہ مرکز توجہ بھی ہے اِسکی محدود آمدنی ِاِسکے دُکھوں میں اضافہ کرتی ہے تو سرکار کی ناقص پالیساں اِس کے زخم ہرے کر دیتی ہیں،یہ خود کو دنیا کا مظلوم فرد ہی خیال کرتا ہے،اسکی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ جس فصل کواُگاتا ہے اِسکے دام اپنی مرضی سے وصول کر ہی نہیں سکتا،نہ ہی اسکو اچھے وقت کے لئے ذخیرہ کر سکتا ہے اِسکی بے بسی کا فائدہ ہر وہ سرمایہ دار اٹھاتا ہے جو اس کی فصل کو بطور خام مال استعما ل کرتے ہوئے اس سے بھاری بھر کم منافع کماتا ہے۔


 تاریخ کے تناظر میں دیکھیں تو یہ بیچارہ ہر عہد میں تختہ مشق بنتا رہا ہے، قبائلی ریاستیں ہوں یا رومن ایمپائر اس سے اکثربیگار ہی لی جاتی رہی ہے، اسکی محنت کا پھل ہمیشہ اشرافیہ کا ہی مقدر ٹھہرا ہے۔

(جاری ہے)


 کہا جاتا ہے کہ اگر برصغیر کی زمین سونا نہ ااگلتی تو کبھی برطانیہ ہزاروں میل کی مسافت کر کے اس علاقہ پر قبضہ نہ کرتانہ ہی اسکی صنعت آباد ہوتی،انگریز بہادر نے عہد غلامی میں یہاں کی رعایاکو جو ذرائع نقل وحمل فراہم کئے وہ دراصل زرعی اجناس کو مانچسٹر تک پہنچانے کے لئے تھے، تب یہ خطہ ”سونے کی چڑیا “کہلاتا تھا،جن علاقہ جات تک تاج برطانیہ رسائی حاصل نہ کر سکا وہاں نے اس نے جاگیر یں اپنے وفاداروں کے نام کر کے وفاداریاں خرید کر سادہ لوح عوام کو مزید محکوم رکھنے کا ساماں پیدا کیا تھا، فی زمانہ یہی اشرافیہ کسی نہ کسی شکل میں عوام پر مُسلّط ہے،بدلتے حالات نے عالمی سامراج سے وقتی طور پر نجات تو دے دی ہے اب یہ نئی صورت میں نمودار ہوا ہے آج کی اصطلاح میں اسکو” نیو کلونیل ازم “کہتے ہیں جس کے خلاف اس وقت انڈیا (پنجاب )کے کسان سراپا احتجاج ہیں۔


ارض پاک اور ہمسایہ ملک کے پنجاب میں جو قدر مشترک ہے وہ کسان کی غالب آبادی کا دیہات میں مقیم ہوناہے اسکو قریباً ایک جیسے ہی مسائل کا سامنا ہے۔جس میں سرفہرست فصلوں کی کاشت اور پیداواری لاگت ، مٹی کی زرخیزی میں کمی،پانی کی سطح کا نیچے ہونا شامل ہے،بھارتی کسان شکوہ کناں ہے کہ جب الیکشن کا زمانہ آتا ہے سیاسی جماعتیں ان کے پاس آتی ہیں جب ووٹ لے لیتی ہیں تو پھر وہ کارپوریٹ کی سنتی ہیں، ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ملتا جلتا رویہ سیاسی جماعتوں کا ہے،وہ بھی کسانوں سے وعدے وعید کرتی ہیں لیکن پارلیمنٹ میں پہنچتے ہی سب بھول جاتی ہیں، ہندوستان کے ارباب اختیار نے البتہ جاگیر دارانہ نظام ختم کرنے میں پہل کی لیکن پاکستان اب تلک بھی اس سامراجی نشانی سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکا روایت ہے کہ لیاقت علی خاں راولپنڈی کے عوامی جلسہ میں بڑا اعلان کرنے والے تھے کہ شہادت کے منصب پر فائز کر دئے گئے۔


بھارت کی آدھی سے زیادہ آبادی زراعت سے اپنا معاش کماتی ہے،حالیہ قوانین جن کے خلاف کسان کا احتجاج اب ایک منظم تحریک کی شکل اختیار کر چکا ہے، اپوزیشن زرعی قوانین کو کسان مخالف قرار دے چکی ہے۔یہ تحریک آل انڈیا سنگھرش کمیٹی کے زیر اہتمام جاری ہے جس میں کسانوں کی دو سو تنظیمیں شریک ہیں۔
تحریک کی روح رواں کمیٹی کا کہنا ہے کہ اب تلک تین لاکھ سے زائد کسان خود کشی کر چکے ہیں،اگر ایسے واقعات کسی اور ریاست میں ہوتے تو وہ ہل جاتی اور تمام ادارے حرکت میں آجاتے لیکن انڈیا سرکار کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی گویا یہ انسان کی موت نہ تھی بلکہ مٹی کے باوئے کا ٹوٹنا تھاشائد اس لئے ہی شرکاء تحریک اپنے بیٹوں اور بھائیوں کے سروں کی کھوپڑیاں اس اُمید پر اُٹھا کر لائے ہیں کہ شائد مودی سرکار کو ان پر رحم آجائے۔

اگر اہل کشمیر کی شہادتوں،کسانوں کی ہلاکتوں، مسلم کش فسادات اور دلتوں کی پُر تشدد اموات کو شامل کیا جائے تو یہ تعداد کئی لاکھ بنتی ہے،گلوبل ولیج کے اس دور میں عالمی برادری کا انسانوں کے اس طرح قتل عام سے صرف نظر کرنا مجرمانہ غفلت ہے۔
جب سے مودی سرکار بر سر اقتدار ہے تب سے پورے ہندوستان میں عوامی سطح پر اضطراب پایا جاتا ہے،ہر نیادن کسی نہ کسی تحریک کو جنم دے رہا ہے،اقلیتوں کا تو جینا ہی محال ہوتا جارہا ہے،کبھی کشمیر کی آئینی حثیت کو ختم کرکے عوام سے بنیادی حق چھینا جارہا ہے کبھی شہریت کے قوانین سے چھیڑ خانی کر کے عوام کا امتحان لیا جاتا ہے،کبھی عبادت گاہوں پر حملے کیے جاتے ہیں ،دنیاتو سیکولر بھارت کو دیکھ رہی تھی اور ہندوستانی قیادت اس کا فائدہ ہی اٹھاتی رہی ہے لیکن موجودہ قیادت اس کے جمہوری چہرہ کو داغ دار کرنے میں مصروف ہے ۔

بھارت ہمارا پانی بند کر کے ہمارے کسان کی مشکلات میں اضافے کا بھی مرتکب ہوا ہے۔
ہماری پریشانی یہ ہے کہ جب بھی کوئی عوامی تحریک انڈیا کی سرزمین پر جنم لیتی ہے تو اسکی قیادت اپنی خفت مٹانے کے لئے الزام اسلام آباد پر دھرتی ہے اور پلوامہ جیسا ڈرامہ رچاکر دنیا کو احمق بناتی ہے،کسانوں کی موجودہ تحریک کا خمیر بھی پنجاب سے اٹھا ہے،سکھ کیمونٹی کا اس میں کلیدی کردار ہے،اس نے یوم جمہوریہ پر لال قلعہ پر اپنا مذہبی پرچم لہرا کر یہ پیغام تو دیا ہے کہ اب وہ مطالبات کی منظوری کے بغیر وآپس گھروں کو نہیں جائیں گے،معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ جہاں کہیں بھی زرعی شعبہ میں کارپوریشنز کا عمل دخل بڑھا ہے وہاں اس کے منفی اثرات ہی مرتب ہوئے ہیں۔


 کسان ہی فوڈسیکورٹی کا محافظ سمجھا جاتا ہے،اسکو فصلوں کی کاشت سے لے کر بچوں کے روزگار تک تمام سہلوتیں فراہم کرنا ارباب اختیار کے فرائض میں شامل ہے جیسے جیسے زمین کی تقسیم وراثتی طور پر ہوتی رہے گی کسان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا،اسکا ایک حل تو زمین کی پیداوار میں اضافہ ہونا لازم ہے دوسرا کسان کو معاشی فکر سے آزاد کرنا ہے۔


تاہم کسی بھی ریاست کے کسان کو اس بات پر مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ وہی فصل کاشت کرے جو خریدار کی ضرورت ہے اور اسکو ہی فروخت کرے جسکا حکم سرکاردے یہی بھارتی کسان کے مسائل ہیں۔
ہمارے ہاں بھی کارپوریٹ فارمنگ کی باز گشت سنائی دیتی رہی ہے ۔خدشہ یہ ہے کہ اس طرز کی فارمنگ کی فیوض برکات اس ملک کا وڈیرہ، جاگیر دار اور سردار ہی سمیٹ سکے گا۔ عالمی مالیاتی ادروں کی بڑھتی ہوئی مداخلت سے اس نو عیت کے قوانین کا سامنا ہمارے عام کسان کو بھی ہو سکتا ہے، جس کا پیشگی ادارک لازم ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :