رسوائی

جمعہ 5 نومبر 2021

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

 اگر آپ ستر کی دہائی کے اخبارات پر طائرانہ نگاہ ڈالیں تو سمجھنے میں قطعی دیر نہیں لگے گی کہ عوام کو جن مسائل کا سامنااُس وقت تھا ، آج کی پبلک کو بھی یہی درپیش ہیں۔ اگر آٹا آج مہنگا ہے ،تو چینی کون سے سستی ہے،اُس عہد کی سرکار جس طرح مافیاز کے لتے لیتی تھی، آج کی حکومت بھی انھیں ہی الزام دیتے ہیں،تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ چار دہائیوں میں صرف چہرے بدلے ہیں، نظام اسی طرح کچھوے کی چال چل رہا ہے۔


نجانے خرابی سسٹم میں ہے یا صلاحیتوں سے محروم مقتدر طبقہ ہے، پالیسی بنانے والے اہل نہیں یا عوام کے نصیب ہی میں رسوائی لکھی ہے،اگر چند سال پہلے عوام قطار میں لگ کر آٹا لیتے تھے تو آج عدم د ستیابی کی دہائی دی جاتی ہے زرعی ملک میں بنیادی ضرویات جن کا خام مال یہاں دستیاب ہے اس کی کمی ہونا، اس کے لئے عوام کا مارے مارے پھرنا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔

(جاری ہے)


 ہر سو لہلاتے کھیت، سونا اگلتی سرزمین ،اِسکے محنتی کسان، نوجوانوں پر مشتمل اسکی آبادی ہو،غالب تعداد دیہی علاقہ جات میں مقیم ہو، لیکن اسے بھی اناج میسر نہ ہو جو وہ خود اگائیں، تو پھرکس کو دوش دیا جائے،گندم، چینی، آٹا،گوشت کے ہمسایہ ملک میں سمگلنگ ہونے باز گشت سنائی دیتی رہتی ہے،فلور ملز سے لے شوگر کے صنعت کاروں کو یہ شکوہ ہو کہ اہم سٹاک ہولڈرز ہونے کے باوجود انھیں اہمیت نہیں دی جاتی، جب آراء طلب کی جاتی، بحث مباحثہ ہوتا تو باتیں کچھ اور ہوتی ہیں جب پالیسی بنتی ہے تو وہ گفتگو سے یکسر مختلف ہوتی ہے، ایسی بد اعتمادی میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے تو بیچارے عوام ہی ہیں۔


کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں اِنکے وزیر خزانہ نے انھیں یہ مشورہ دیا کہ دال اور چاول، آٹا کی قیمت کو ہر حال میں کنٹرول رکھا جائے، یہ اتناسستا ہو کہ غریب کی دسترس میں رہے، دلیل کے طور پر کہا کہ کسی غریب کے لئے سب سے زیادہ تکلیف دہ بات اور لمحہ وہ ہوتا ہے جب بچے اس کے سامنے بھوک سے بلک رہے ہوں، اگر اِس کے گھر میں ہفتہ بھر کا راشن ہو اور اسے ایک دو دن مزدوری نہ بھی ملے،تووہ اس پر سمجھوتہ کر لے گا لیکن اگر گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہو اور اسکو مزدوری بھی نہ ملے تو اسکی اس کیفیت کا اندازہ لگائیں جب وہ خالی ہاتھ لوٹ رہا ہو، بھوکے بچوں کا اسے سامنا کرنا پڑے، اس نازک صورت حال میں وہ انتہائی قدم اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرے گا، اگر اعدادو شمار اکھٹے کئے جائیں تو بھوک کی وجہ سے زندگی کا خاتمہ کرنے والی کی تعداد ضیائی آمریت میں نہ ہونے کے برابر ہے۔


پانچ دہائیوں سے آٹے، چینی،گندم کے مسائل ہی جو حکومتیں حل نہیں کر سکیں ان سے اس ریاست کو فلاحی بنانے کی تو توقع رکھنا ہی
عبث ہے۔
ہمارے اس خطہ میں بڑی آبادی والے ممالک موجود ہیں،انھیں بھی اس نوع کی مشکلات سے واسطہ پڑتا ہے، لیکن جو امتیاز انھیں حاصل ہے وہ انکی قوت خرید اور آمدن کا ہم سے بہتر ہونا بھی ہے۔
کرونا کے عذاب سے دُنیا نکل رہی ہے، معشیت کا پہیہ چل نکلا ہے، ہماری سرکار نے سمارٹ لاک ڈاؤن کی نئی اصطلاح متعارف کروائی ، پردھان منتری بار بار فرماتے کہ اگر مکمل لاک ڈاؤن ہوا تو لوگ بے روزگاری، بھوک سے مر جائیں گے ،لہذا کاروبار اور لاک ڈاؤن ساتھ ساتھ چلتا رہا، اس کے باوجود عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں غربت کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، کرونا کی غیر معمولی صورت حال سے کاروباری طبقہ نے ناجائز فائدہ اٹھا کر تمام اشیاء کے نرخ از خود بڑھا دیئے ہیں، اس کو ڈالر سے نتھی کر کے ملبہ سرکار پر ڈال دیا ہے ،مقام حیرت ہے کہ وہ خام مال جس کا دور دور سے درآمد سے کوئی تعلق ہی نہیں اِسکے دام میں اضافہ کرنا بدنیتی کا پتہ دیتا ہے جس کی ایک وجہ سرکار کی انتہائی کمزور گوورننس بھی ہے۔


گذشتہ دنوں فلور ملز ایسوسی ایشن کے ایک ذمہ دار اور کلیدی عہدہ دار سے مہنگے آٹے پر نشست ہوئی، تو انکا کہنا تھا کہ سرکار کی ناقص پالیسی ہی اس کی ذمہ دار ہے، بقول انکے گذشتہ تین سال سے یہ معاملہ درپیش ہے، انکی رائے یہ ہے،گندم پر سبسڈی دینے کی بجائے اسے کھلی مارکیٹ میں خرید کرنے کی اجازت دی جائے کوٹہ سسٹم کو ختم کردیا جائے، فلور ملز مالکان کو گندم محکمہ فوڈ سپلائی کرتا ہے،اس دوران سٹاکسٹ گندم خرید کر سٹور کر لیتا ہے، مارکیٹ سے گندم ختم ہوجاتی ہے،یا مہنگے داموں ملتی ہے، کوٹہ سسٹم کے تحت گندم فلور ملز کو فراہم کی نہیں جاتی یا بہت تاخیر سے دی جاتی ہے جب فلور ملز مالکان خرید کرتے ہیں تو وہ عالمی مارکیٹ سے حساب سے مہنگی ملتی ہے، نتیجہ کے طور پر مہنگا آٹا بیچنا پڑتا ہے جب کہ گرائنڈنگ کے چارجز تو بہت ہی کم ہوتے ہیں۔


 انکے خیال میں جب گندم عام ہو اس وقت خرید کرنے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہ ہو تو وہ اپنی ضرورت کے مطابق سٹاک کر لیں تو مل مالکان سستا داموں آٹا فراہم کر سکتے ہیں، فوڈ محکمہ کی طرف سے گندم کی فلور ملز کو فراہمی کامقصد ہی سٹاکسٹ اور سرمایہ دارکو فائدہ دینا ہے، جب اِن سے پوچھا گیا کہ اگر آپ اپنی سٹاک شدہ گندم کو زیادہ منافع کے لالچ میں کسی دوسرے سٹاکسٹ کو فروخت کر کے بحران پیدا کر دیں تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا، گویا ہوئے کہ پنجاب کی ساری فلور ملز سرکار کے پاس رجسٹرڈ ہے، روزانہ کی بنیا د پرآٹا بنانے کی رپورٹ سرکار کو دینا ہوتی ہے اس لئے کسی کو فروخت کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔


ملتان میں فلور ملز کے اعتبار سے ایک سوال پر کہا ہے، یہاں ملز کی کافی تعداد ہے ، اِنکے مالکان جن سے مشاورت بھی ہوتی رہتی ہے، زیادہ تر ان پڑھ ہیں، جو اس کاروبا ر کا وژن نہیں رکھتے زیادہ کا انحصا ر گندم کے کوٹہ پر ہے، اس سے ہی وہ گذر بسر کرتے ہیں، انکا کہنا تھا کہ بیرون ملک چیمبر آف کامرس کی ذمہ داری کاروباری طبقہ کی راہنمائی کرناہے کہ کس شعبہ میں انھیں سرمایہ کاری کرنی چائیے، کون سی صنعت اس علاقہ کے لئے لازم ہے ہمارے ہاں یہ کلچر نہیں بھیڑ چال ہے ،اس لئے سپلائی اور ڈیمانڈ کے مسائل
 سامنے آتے ہیں، جس کے اثرات اشیاء کی قیمت پر پڑتے ہیں۔


جنوبی پنجاب میں صرف ان صنعتوں میں ہی سرمایہ کاری کی جائے جو یہاں کی ضرورت ہے اس سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے، نیز اب صنعت کا کلچر بھی بدل چکا ہے، جدید مشینری کی تنصیب وقت کی اہم ضرورت ہے،اس موقع پر انھوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ اس علاقہ میں فلور مل کا جدید ترین پلانٹ نصب کرنے جارہے ہیں۔
 گمان یہ کیا جاتا ہے کہ جب تلک ارباب اختیار خود کو عقل کل سمجھتے رہیں گے تمام سٹیک ہولڈز کی آراء کی روشنی میں بنیادی ضروریات کی فراہمی کو لازم نہیں کریں گے، عام آدمی اس طرح ہی رسوا ہوتا رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :