حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کی دعا نے بادشاہ بنا دیا

بدھ 2 دسمبر 2020

Ma Gi Allah Walley

ماں جی اللہ والے

ہندوستان میں سلطان غیاث الدین تغلق کے دور حکومت میںمیں ایک غریب بیوہ رہا کرتی تھی جو بڑی نیک اور عبادت گزار تھی۔بیوہ کی ایک نابینا بیٹی اور ایک بیٹا تھاجس کا نام حسن تھا۔حسن پندرہ سال کا تھا وہ دن بھر محنت مزدوری کرکے اپنی بیوہ ماں اور نابینا بہن کا پیٹ پالتا تھا۔ایک روز اسے کوئی بھی مزدوری نہ ملی جبکہ اس کی ماں اور بہن پہلے ہی تین دن سے فاقہ کررہے تھے۔

اس صورتحال پر حسن اپنی ماں کے سامنے بیٹھ کر رونے لگا۔نیک ماں نے اسے تسلی دی۔ادھرسخت سردیوں کا موسم شروع ہوچکاتھا لیکن ان کے پاس گرم کپڑے اور لحاف بھی نہیں تھا۔ایک رات حسن کی بہن کو پسلی میں شدید درد اٹھا اور وہ چل بسی۔ محلے والوں نے مل جل کر اس کے کفن دفن کا انتظام کردیا۔اب صرف حسن اور اس کی بیوہ ماں بچے تھے لیکن فاقہ کشی ختم نہ ہوسکی ۔

(جاری ہے)

اُن دنوں دہلی میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ کی بڑی شہرت تھی ان کی دعا اور برکت سے لوگ فیض یاب ہورہے تھے ۔حسن نے حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ کی خدمت میں حاضر ہونے کا ارادہ کیا تاکہ اپنی بدحالی دور کرانے کے لئے دعا کراسکے۔جب حسن حضرت خوجہ نظام الدین اولیاء ؒ کی خانقاہ کے باہرپہنچا تو شہزادہ محمد تغلق خانقاہ کے اندرسے نکل رہا تھا جبکہ خانقاہ کے اندرحضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ لوگوں کے ہجوم میں بیٹھے کہہ رہے تھے''ایک سلطان گیا اور دوسرا سلطان آگیا۔

''
حسن ابھی خانقاہ کے باہر کھڑا تھا۔حضرت نظام الدین اولیاء ؒ نے خادم سے فرمایا''جاؤ، باہر جو سلطان کھڑا ہے، اسے میرے پاس لے آؤ۔'' خادم باہر گیا تو حسن کو غریب حالت میں دیکھ کر واپس آگیا اور عرض کیا کہ باہر کوئی بادشاہ نہیں ہے، صرف ایک مفلوک الحال نوجوان کھڑا ہے۔'' حضرت خواجہؒ نے فرمایا''ہاں، وہی تو مستقبل کا بادشاہ ہے، جاؤ اسے میرے پاس لے آؤ۔

''جب حسن خانقاہ کے اندر داخل ہوا تو حضرت نظام الدین اولیاء ؒ نے بڑی شفقت سے فرمایا''بادشاہ سلامت، بیٹھ جایئے۔''حسن بولا''حضور،میں تو قسمت کا مارا، بہت ہی غریب آدمی ہوں۔ دین اور دنیا کے بادشاہ تو آپ ہیں''۔حسن کو کیا معلوم تھاکہ ماں کی دعاوں کی بدولت اب اسے فیض ملنے کا وقت آچکا تھا۔حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ نے اپنی افطاری کے لئے رکھا کھانا حسن کو دیا اور کہا''اسے کھالو،یہ دکن کی بادشاہی کا تاج ہے''حسن نے حکم کی تعمیل کی اور کھانا کھالیا۔


چند روز بعدحسن کو ایک شاہی نجومی ''کانگو بہمن'' کے کھیت میں ہل چلانے کی ملازمت مل گئی۔ ایک روزہل چلاتے ہوئے حسن کو زمین کے اندر سے سونے کے سکے اور اشرفیوں سے بھری ایک دیگ ملی۔اس نے خیانت کرنے کی بجائے دیگ کانگوبہمن کے حوالے کردی۔ شاہی نجومی کانگو بہمن جب دربار میں حاضر ہوا تو شہزادہ محمد تغلق کواپنے ملازم حسن کی ایمانداری کاواقعہ سنایا۔

شہزادہ حسن کی ایمانداری کاواقعہ سن کر بڑا متاثر ہوا اور حسن کوشاہی دربار میں ملازم رکھ لیا۔کچھ عرصہ بعد حسن اپنی ذہانت اور خداداد قابلیت کے باعث دربارِ شاہی کے خاص امرا میں شامل ہوگیا۔جب شہزادہ محمد تغلق ہندوستان کا بادشاہ بنا تو حسن اُس وقت دکن میں تھا۔ دکن کے امرا نے اتفاقِ رائے سے حسن کو اپنا بادشاہ بنالیا۔ بادشاہ بننے کے بعد حسن اکثرکہا کرتا تھا ''حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ کی دعا نے مجھے گدائی سے شاہی تک پہنچایا ہے، ورنہ میں تو ایک مفلوک الحال انسان تھا۔

''
ایک مرتبہ ایک شخص آپؒ کی خدمت میں مالی مدد کے لئے حاضر ہو۔تین دن خانقاہ میں قیام کے باوجود مالی امداد کا کوئی معقول انتظام نہ ہوسکا تو وہ شخص واپس گھر جانے لگا حضرت نظام الدین اولیاء ؒ نے اسے اپنے نعلین دیتے ہوئے کہا ''اس فقیر کے پاس تمھیں دینے کے لئے اپنے جوتوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے'' وہ شخص جوتے لے کر چل پڑا اور سوچنے لگا ''ان بوسیدہ جوتوں کا کیا کروں گا؟حضرت نے ا چھا مذاق کیا ہے میرے ساتھ''رات ہوئی تو وہ شخص ایک سرائے میں ٹھہر گیا۔

سرائے سے دورامیر خسرو جو حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کے مرید تھے، لشکر سلطانی کے ہمراہ رات کو پڑاؤ کیاتو اچانک امیر خسرو چلا اٹھے مجھے اپنے مرشد کی خوشبو آرہی ہے وہ خوشبو کا تعاقب کرتے اس سرائے تک جا پہنچے اور اس شخص کو جگایا اور پوچھا تم حضرت نظام الدین اولیاء کی خانقاہ سے آرہے ہو کیا؟ وہ شخص آنکھیں ملتا ہوا بولا ''ہاں میں ان کے پاس مدد کے لیے گیا تھا ،انھوںنے اپنے پرانے بوسیدہ جوتے دیئے ہیں''امیر خسرو نے فرط جذبات میں اس شخص سے اپنے پیرومرشد کے جوتے سات لاکھ چیتل(سکہ رائج الوقت) کے بدلے خرید لئے۔وہ شخص خوش ہوگیا اور جان چکا تھا کہ حضرت نظام الدین اولیائؒ نے کش طرح اس کی مدد فرمائی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :