معذوروں کا عالمی دن اسلام کی رو سے

جمعرات 3 دسمبر 2020

Ma Gi Allah Walley

ماں جی اللہ والے

قدیم یونانی شہروں میں اسپارٹا اور ایتھنز میں قوانین تشکیل دینے والے مدبروں ''لائکرگس ''(820قبل مسیح۔ 730ق م) اور'' سولن'' (638 ق م۔ 558 ق م)نے حکومتوں کو اجازت دے ڈالی کہ معذوروں کو قتل کر ڈالیں کیونکہ معذور نہ توکام کے قابل تھے اور نہ جنگ لڑ سکتے تھے۔اس وقت یہ خیال کیا جاتا تھا کہ معذور افراد پر بھوت ،پریت اور چڑیلیں قابض ہوتی ہیں۔

مشہور فلسفی افلاطون کا بھی کہنا تھا کہ ''ذہنی و جسمانی طور پر معذور مرد و زن معاشرے پر بوجھ ہیں چنانچہ جمہوریہ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔'' مغرب میںبھی طویل عرصہ تک معذوروں کو اچھوت سمجھا جاتا رہا۔ مشہور برطانوی فلسفی ہربرٹ اسپنسر(1903-1820ئ) نے اپنی حکومت پر زور دیا کہ وہ معذوروں کا خیال کرنے پر رقم خرچ نہ کرے کیونکہ وہ کوئی کام نہیں کر سکتے۔

(جاری ہے)

اسلام کے ظہور سے قبل عرب میں معذوروں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جاتا تھا۔قریش اور سردارانِ مکہ معذور افراد کو منحوس اور قابل نفرت خیال کرتے تھے۔ عرب لوگ معذور ںکے ساتھ کھانا نہیں کھاتے تھے۔معذوروں کو تنہائی، مایوسی اور بے چارگی کی زندگی گزارنا پڑتی تھی۔معذوروں کے ساتھ ہونے والے امتیازی اور غیر انسانی سلوک کا خاتمہ اسلام آنے کے بعد ہوا۔

اسلام نے معذوروں کے حقوق اور عزتِ نفس کا اعلان کیا اور جاہلانہ رسموں کا قلع قمع کیا۔اندھے، بیمار اور جسمانی طور پر معذور (لنگڑے) افراد چونکہ جنگ میں شریک نہ ہو سکتے تھے لہٰذا اُنہیں قریبی رشتہ داروں کے گھروں سے کھانا کھانے کی اجازت دی گئی۔اس دور میںماں باپ اور بہن بھائی پیٹ بھر کر کھانا کھانے کی خاطر گھر کے معذور افراد کو رشتہ داروں کے گھر چھوڑ آتے تھے تاکہ وہ کہیں سے روکھی سوکھی کھا لیں۔

بعض لوگ اندھوں اور لولے لنگڑوں کو حقیر سمجھ کر لگ تھلگ بٹھا کر کھانا دیتے تھے۔ رب العالمین نے انہیں تنہا کرنے کی کراہت کو ختم کرتے ہوئے اپنے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے اکٹھے کھانے کی ترغیب دی۔آپ ؐنے ایک نابینا صحابیؓ (حضرت ابن ابی مکتوم)کو نہ صرف موذن بلکہ اپنا نائب بھی مقررفرمایا ۔
حضرت سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن مسیب سے مروی ہے کہ صحابہ کرامؓ، نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جہاد کو جاتے تو اپنے مکانوں کی چابیاں نابینا، بیماروں اور اپاہجوں کو دے جاتے جو اپنی معذوریوں کے باعث جہاد میں نہ جا سکتے اور اُنہیں اجازت دیتے کہ اِن مکانوں سے کھانے کی چیزیں لے کر کھائیں ۔

جس طرح نبی اکرم ؐ معذوروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے تھے اسی طرح صحابہ کرام ؓ بھی معذوروں کا خیال رکھتے تھے۔مدینہ کے اطراف میں ایک نابینا بڑھیا تھی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ روزانہ علی الصبح اِس کے جھونپڑے میں جا کر اس کے لیے پانی اور دیگر ضروری خدمات انجام دیتے تھے۔ کچھ عرصے بعد آپ کو محسوس ہوا کہ کوئی شخص اِن سے پہلے آکر یہ کام کر جاتا ہے۔

ایک روز تحقیق کی غرض سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ رات گزرنے کے بعد جلد وہاں تشریف لے گئے تو دیکھا خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اِس ضعیفہ کی خدمت گذاری سے فارغ ہو کر اس کے جھونپڑے سے نکل رہے تھے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں اِس بات کا سخت اہتمام کر رکھا تھا کہ کوئی شخص فقر و فاقہ میں مبتلا نہ ہو۔

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم جاری کر رکھا تھا کہ ہر مفلوج اور اپاہج فرد کو بیت المال سے ماہانہ وظیفہ دیا جائے۔اسی طرح ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کو کھانا کھلا رہے تھے کہ ایک شخص کو دیکھا جو بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا تھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ'' اے بندہ خدا،دائیں ہاتھ سے کھا۔'' اُس نے جواب دیا کہ'' وہ مشغول ہے۔

'' آپ آگے بڑھ گئے۔ جب دوبارہ گزرے تو پھر وہی فرمایا اور اُس شخص نے پھر وہی جواب دیاجب تیسری بار آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُس کو ٹوکا تو اُس نے جواب دیا کہ'' موتہ کی لڑائی میں میرا دایاں ہاتھ کٹ گیا تھا۔'' یہ سن کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رونے لگے اور پاس بیٹھ کر اُس سے پوچھنے لگے کہ تمہارے کپڑے کون دھوتا ہے؟ اور تمہاری دیگر ضروریات کیسے پوری ہوتی ہیں؟ تفصیلات معلوم ہونے پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے لیے ایک ملازم لگوا دیا۔

اسے ایک سواری دلوائی اور دیگر ضروریاتِ زندگی بھی دِلوائیں۔(کتاب الآثار، ابو یوسف 1: 208)
ایک مقام پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گزر ہوا، دیکھا کہ ایک ایسا بوڑھا سائل بھیک مانگ رہا تھا جس کی بصارت زائل ہو چکی تھی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا''تم اہلِ کتاب کے کس گروہ سے ہو؟'' اُس نے کہا''یہودی'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے پوچھا''تمہیں کس چیز نے بھیک مانگنے پر مجبور کیا ہے؟ ''اُس نے جواب دیا''میں بڑھاپے، ضرورت مندی اور جزیہ کی وجہ سے بھیک مانگ رہا ہوں۔

'' حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے اور گھر میں سے اُسے کچھ لا کر دیا اور پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیت المال کے نگران کو بلایا اور اہل کتاب بوڑھے معذور لوگوں کا جذیہ معاف کرنے کے احکامات جاری کردیئے۔(ابو یوسف، کتاب الخراج:136)آج معذوروں کے ساتھ حسن سلوک کا جو سبق دنیا کو دیا جارہا ہے وہ ہمارے پیارے نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت پہلے سے دے چکے ہیں ۔اسلام کی تعلیمات اور عملی طور پرسمجھایا گیا کہ معذوروں کے ساتھ دیگرانسانوں کی طرح بلکہ نارمل انسانوں سے بڑھ کر بہترین سلوک کیا جائے۔حکومت کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی چاہیئے کہ اپنے اردگردبسنے والے معذور افراد کی ہر ممکن مدد و تعاون کریں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :