دو نمبر غذائیں

جمعرات 20 مئی 2021

Maisha Aslam

معیشہ اسلم

کہنے کو تو ہمارا ملک پاکستان بہت طاقتورہے اور اس بات میں کوئی شک و شبہ بھی نہیں ہے مگر کہیں نہ کہیں ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو لوگوں کو ایمانداری سے کام کرنے سے روکتے ہیں۔ آج سامنے پڑی چیزوں کو دیکھا تو میرے دماغ میں ایک سوال نے پنجے گاڑھے کہ جب سے اس دنیا میں قدم رکھا ہے کیا میں نے کوئی خالص چیز بھی کھائی ہے یا پی ہو؟؟ اور اس سوال نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا کہ تم پاکستان میں رہتے ہوئے یہ سوال خود سے کیسے کر سکتے ہو اور اس افسوس کے ساتھ میں نے اپنی گردن جھکا لی کہ آگے آنے والی نسلوں کو بھی یہی سب بھگتنا پڑے گا۔


ہمارے  ملک پاکستان میں ملاوٹ سے پاک اور صحت بخش اشیائے خوردنوش کی فراہمی کسی خواب سے کم نہیں۔ ملاوٹ سے پاک دودھ کا حصول مشکل ترین مرحلہ بنتا چلا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

خصوصاًشہری علاقوں میں ملاوٹ سے پاک دودھ کا ملناکسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ روزمرہ اشیائے خوردنوش میں مکمل غذا سمجھے جانیوالے دودھ کی بات ہو یا پھر مشروبات کی۔۔ ہر جگہ جعلساز اور صحت دشمن عناصر ہی ہر طرف  نظر آتے ہے۔

جدید مشینری اور کیمیکلزکے استعمال سے جعلی دودھ منٹوں میں تیار کرلیا جاتا ہے۔فارملین، میلامائن،یوریا،صابن،آئل اور سرف کے استعمال سے دودھ تیار کیا جارہا ہے۔ اونچی دکان پھیکے پکوان جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ پانی جو اللہ کی نعمتوں میں صفِ اول میں شمار ہوتا ہے کئی بیماریوں  کا باعث بن رہاہے گندے پانی کا استعمال ہیضہ،ٹائیفائیڈ اور پیٹ کی متعددبیماریوں کا باعث بنتاہے۔


مختلف اقسام کی سبزیاں، پھل جو پاکستان کا حسین قیمتی اثاثہ اور اللہ کا بے حد کرم جانا جاتاہے۔ اب آلودہ اور سیوریج زدہ پانی سے اگائی جارہی ہیں۔ روزمرہ استعمال کی سبزیوں کو اب تو شہروں اور دیہاتوں میں یکساں عمل سے گزارا جارہا ہے۔ غیر موسمی پھلوں کو پکانے یا تیارکرنے کا عمل توسمجھ میں آتاہے مگر اب موسمی پھلوں کو بھی جلد پکانے کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے۔

موسم گرما کی آمد ہے اور پھلوں کا بادشاہ آم جگہ جگہ نظر آئے گا۔بد قسمتی سے اسے بھی مختلف کیمیکلزلگا کر مارکیٹ میں فروخت کیلئے پیش کیا جائے گا۔ پھلوں پر سپرے پینٹ کے ساتھ رنگ کر اور خوبصورت انداز میں پیش کر کے عوام کو دھوکہ دینے کی بھر پور کوشش کی جا رہی ہوتی ہے۔صحت دشمن منافع خور عناصرجلد پکانے کیلئے مختلف کیمیکلز کا سرعام استعمال کرتے ہیں۔


مٹن ہو یا بیف جانورں کاگوشت جو بھرپوروٹامنز کا حامل ہے اب پتہ نہیں کن کن بیماریوں کو دعوت دے رہاہے۔ جانوروں کی گردنوں پر چھریاں چلانے والے قصاب گاہکو ں کی جیبوں میں ڈاکہ ڈالنے کے علاہ صحت پر بھی حملہ آور ہو رہے ہیں۔ آئے روزمردہ بیمار جانوروں کے گوشت کی خبریں عام ہورہی ہیں۔ اس گوشت کا متبادل سمجھے جانے والے مرغی کے نرخ ایک طرف مردہ مرغیوں کی سپلائی بھی اپنے عروج پر ہے۔

کبھی سوائن فلو کا خدشہ توکبھی دوکاندار بیماراور لاغر مرغیوں کا گوشت فروخت کرتے نظر آتے ہیں۔
ملکِ پاکستان کے تمام صوبو ں میں حالات تو یکساں نظر آتے ہیں مگر صوبہ پنجاب میں فوڈ اتھارٹی قدرے متحرک نظر آرہی ہے۔گزشتہ ایک دہائی سے کا م کرنیوالے ادارے نے اگر چہ کچھ منظم قوانین بنائے ہیں مگر ابھی بہت سا کام کرنا باقی ہے۔ کھلے مصالحوں کی فروخت پر مکمل پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ نام نہادانرجی ڈرنکس بیچنے والوں کی جعلسا زی کو بھی بے  نقاب کیاہے۔

ایسے ہی عوام دشمن عناصر اپنے مزموم مقاصد اور جعلسازی کو چھپانے کیلئے حکومتی اداروں اور مشینری کو بدنام کرنا شروع کردیتے ہیں۔جو نہایت گھناؤنا فعل ہے۔پنجاب میں مختلف دکانوں پر لگے سبز وسفید رنگ کے لائسنس اس ادارے کی جانب سے جاری کیے جاتے ہیں تو دوسری طرف کام کرنیوالے ملازمین کے میڈیکل ٹیسٹ بھی لازمی قرار دیے گئے ہیں۔ حفظان صحت کے اصولوں کی پاسداری نہ کرنیوالوں کے خلاف بھرپور کارروائیاں بھی کی جارہی ہیں۔

ملاوٹی دودھ فروخت کرنیوالے صحت دشمن عناصر کی سرکوبی کیلئے شہروں کے داخلی راستوں پر جدید مشینوں سے دودھ چیک کرنا یہ احساس دلاتا ہے کہ امید ابھی باقی ہے۔کاوشیں تو کی جارہی ہیں مگر پانی سر سے گزر تا جا رہا ہے۔ملک بھر میں محفوظ خوراک کی فراہمی یقینی بنانیوالے اداروں کی استعدادکار  بڑھانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہماری سرحدوں کے اندرچھپے صحت دشمن عناصر کے مکروہ چہرے جلد از جلدبے نقاب کیے جاسکیں۔

دوسرے صوبوں کی بھی فوڈ ریگولیرٹریزکا ماڈل اگرچہ بعد میں آیا ہے مگر کام کی برق رفتاری اور قوانین پر عمل داری جلد ممکن بناناوقت کا تقاضا ہے۔صوبائی حکومتوں کوخوراک سے وابستہ اداروں پر خصوصی نظر رکھنی چاہیے تاکہ ہم صحت مند غذا کے کلچر کو دوبارہ فروغ دے سکیں تاکہ غذا کی بے قدری کو روکا جا سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :