اسلام میں خواتین کے حقوق اور حُسن معاشرت کی تاکید

جمعرات 24 جون 2021

Mansoor Ahmed Qureshi

منصور احمد قریشی

اسلام میں ازروۓ قرآن و حدیث عورتوں کے حقوق ثابت ہیں۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالٰی ہے۔ “اور عورتوں کا مردوں پر حق ہے جیساکہ مردوں کا عورتوں پر ہے۔ ساتھ انصاف کے اور مردوں کو ان پر درجہ (فوقیت )ہے۔”
اس آیت سے ظاہرہوتاہے کہ عورتوں کے مردوں پر حقوق ہیں جیساکہ مردوں کےعورتوں پر ہیں۔ازدواجی زندگی میں نباہ نہ ہونے کی صورت میں اگر مرد کو طلاق کاحق حاصل ہے تو دوسری طرف عورت کو خُلع کا اختیار دیا گیاہے۔


قران پاک کی سورۂ نساء آیت نمبر7میں ارشاد ہوتاہے۔” مردوں کے لیۓ حصہ ہے اس چیز سے کہ چھوڑگئے ہوں ماں باپ اور قرابتی اورعورتوں کے لیۓ حصہ ہےاس چیز سے کہ چھوڑگئے ہوں ماں باپ اور قرابتی تھوڑاہو اس میں سے یا بہت ہو۔حصہ ہے مقررکیا ہوا۔”
اس آیت کی رُوسے خواتین اپنے اپنے ماں باپ اور قرابتیوں کی وارث ہیں۔

(جاری ہے)


 آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے خطبہ میں یوں ارشاد فرمایا۔


“پس عورتوں کے معاملہ میں تم الّٰلہ سے ڈرو کیونکہ تم نے ان کو عہدِ الّٰلہ کے ساتھ لیاہے۔”
ایک دفعہ خواتین نے آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ آپ کے پاس مردوں کا ہرروز ہجوم رہتاہے آپ صلی الّٰلہ علیہ وسلم ہمارے لیۓ بھی ایک خاص دِن مقررفرمائیں۔چنانچہ حضور پاک صلی الّٰلہ علیہ وسلم نے خواتین کے لیۓ ایک دن خاص کر دیا۔

وہ اس دن حاضرِ خدمت ہوتیں ۔ آپ اُنکووعظ و نصیحت کرتے۔
ارشادِ باری تعالٰی ہے:-
“عورتوں کے ساتھ اچھے طریقے سے بودوباش رکھو۔”
اگر عورت سرکشی اختیارکرے۔تو مرد کو اُسے قتل کرنے کا اختیار نہیں۔ بلکہ اسے سمجھاۓ۔نہ سمجھے تو گھر میں اس سے جُدا سوۓ۔ پھر آخر درجہ مارے بھی تو نہ ایسا کہ ضربِ شدید پہنچے۔
آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
“تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لیۓ سب سے اچھا ہو۔

اور میں اپنے اہل کے لیۓ تم سب سے اچھا ہوں۔”
حضور پاک صلی الّٰلہ علیہ وسلم مردوں کی عورتوں کے کج خلقی پر صبر کی وصیت یوں فرماتے ہیں۔
“ میں جو تمھیں عورتوں کے ساتھ اچھے برتاؤ کی وصیت کرتاہوں۔ تم میری وصیت کو قبول کرو۔کیونکہ عورت استخوان پہلو سے پیدا کی گئی ہے ۔ اور استخوان پہلو میں سب سے ٹیڑھی چیز اس کا حصہ بالائی ہے۔ اگر تُم اس استخوان کو سیدھا کرنے لگو گے تو اسے توڑ دو گے اور اگر اسے چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی رہے گی۔

پس تم عورتوں کے بارے میں میری وصیت کو قبول کرو۔”
خواتین پر آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وسلم کی شفقت اس قدر تھی کہ اگر آپ نماز کی حالت میں کسی بچہ کی آواز سُنتے تو اس کی ماں کی مشقت کے خیال سے نماز میں تخفیف فرماتے۔
آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وسلم کے ایک سیاہ فام غلام انجشہ تھے ۔ وہ اونٹوں کے آگے حُدی پڑھا کرتے تھے۔ ایک دفعہ سفر میں ازواجِ مطہرات ساتھ تھیں۔

اونٹ تیز چلنے لگے ۔ تو حضور پاک صلی الّٰلہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
“انجشہ! دیکھنا شیشوں کو آہستہ لے چل”
حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیق رضی الّٰلہ تعالٰی عنہا مکہ میں حضرت زبیر بن العوام کے نکاح میں آئیں۔ حضرت اسماء کابیان ہے کہ “ میں حضرت زبیر کے ہاں گھر کا کام کرتی تھی ۔ ان کا ایک گھوڑا تھا جس کی نگہبانی میرے ذمہ تھی ۔ گھوڑے کی نگہبانی سے زیادہ سخت اور کوئی خدمت نہ تھی ۔

میں اس کے لیۓ گھاس لاتی ۔ اس کی خدمت و نگہبانی کرتی۔” کچھ عرصہ کے بعد آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وسلم کے پاس غلام آۓ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وسلم نے ایک خادمہ حضرت اسماء کو عطا فرمائی جو گھوڑے کی خدمت کیا کرتی تھی۔ آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وسلم نے وہ باندی حضرت ابو بکر صدیق رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کے ہاں بھیج دی تاکہ وہ حضرت اسماء کے پاس بھیج دیں۔
دُنیا کے کسی مذہب میں والدین یا شوہر کے ترکہ میں عورت کا کوئی حق نہ تھا۔اور اب تک بھی اسلام کے سوا کسی مذہب نے عورت کو ترکہ میں کسی کا حقدار نہیں ٹھہرایا۔ حضور پاک صلی الّٰلہ علیہ وسلم نے عورت کو عزت و احترام کے دربارمیں مردوں کے برابر جگہ دی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :