غزوۂ حنین

بدھ 30 جون 2021

Mansoor Ahmed Qureshi

منصور احمد قریشی

فتح مکہ کا اثر قبائلِ عرب پر نہایت اچھا پڑا ۔ وہ اَب تک منتظر تھے اور کہا کرتے تھے ۔ کہ حضرت محمد صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی قوم کو آپس میں نمٹ لینے دو ۔ اگر وہ قریش پر غالب آگئے تو سچے پیغمبر ہیں ۔ اس لیۓ جب فتح مکہ ہوا تو ہر ایک قوم نے اسلام قبول کرنے میں پیش دستی کی ۔ مگر ہوازن کا قبیلہ جو مکہ و طائف کے درمیان سکونت پذیر تھا ۔

اس فتح پر بہت برافروختہ ہوا ۔ وہ اس سے پہلے ہی جنگ کی تیاریاں کر رہے تھے ۔ اس لیۓ فتح کی خبر سُنتے ہی حملہ کے لیۓ تیار ہو گئے ۔
ہوازن (باستثناۓ کعب و کلاب ) کے ساتھ ثقیف تمام اور نصروجشم تمام اور سعد بن ابی بکر اور کچھ بنو ہلال شامل ہوۓ ۔ جشم کا رئیس درید بن صمہ تھا ۔ جس کی عمر سو سال سے متجاوز تھی ۔ اسے محض مشورہ کے لیۓ ہودج میں بِٹھا کر ساتھ لے گئے ۔

(جاری ہے)

تمام فوج کا سپہ سالار اعظم مالک بن عوف نصری تھا ۔ جس کے حکم سے بچے ، عورتیں اور اموال بھی ساتھ تھے ۔ تاکہ لڑائی میں پیچھے نہ ہٹیں ۔ درید نے اس حکم کو پسند نہ کیا ۔ مگر اُس کی ایک نہ سُنی گئی ۔
رسول الّٰلہ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر پہنچی تو آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبدالّٰلہ بن ابی حدرد اسلمی کو بطور جاسوس دریافت حال کے لیۓ بھیجا ۔

وہ دشمن کے لشکر میں آۓ اور انھوں نے وہاں کے تمام حالات دربار رسالت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کئے ۔ آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے تیاری شروع کر دی ۔ دس  ہزار درہم سے زائد عبدالّٰلہ بن ابی ربیعہ سے جو ابو جہل کے بھائی تھے قرض لیۓ گئے ۔ اور صفوان بن امیہ سے جو اب تک ایمان نہ لاۓ تھے ۔ سو زِرہیں مع لوازم مستعار لی گئیں ۔
غرض شوال سنہ ۸ ھ میں آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم بارہ  ہزار کی جمعیت کے ساتھ روانہ ہوۓ ۔

جن میں سے دو ہزار طلقاء ( اہلِ مکہ ) تھے ۔ لشکر کی کثرت کو دیکھ کر بعضوں کی زبان سے بے اختیار نکلا ۔
 “ آج ہم پر کون غالب آ سکتا ہے “ ؟ جب حنین میں پہنچے تو صبح کے وقت کہ ابھی اُجالا بھی اچھی طرح نہ ہوا تھا ۔ حملہ کے لیۓ آگے بڑھے ۔ دشمن نے ان کے پہنچنے سے پہلے ہی اس طرح صف آرائی کر رکھی تھی کہ سب سے آگے سوار ، سواروں کے پیچھے  پیادہ ، پیادوں کے پیچھے عورتیں اور عورتوں کے پیچھے بکریاں اور اُونٹ تھے ۔

اور کچھ فوج  پہاڑ کی  گھاٹیوں اور دروں کی کمین گاہوں میں مقرر کر دی تھی ۔
 اسلامی فوج نے پہلے ایسی شجاعت سے دھاوا کیا کہ کُفار بھاگ نکلے ۔ مسلمان غنیمت لُوٹنے میں مشغول ہو گئے ۔ کُفار نے ایک دوسرے کو پُکارا کہ یہ کیا ذلت و فضیحت ہے ۔ اور مُڑ کر حملہ کیا ۔ اب کثرت پر نازش اپنا رنگ لائی ۔ لشکر اسلام کے مقدمہ میں بہت سے ایسے نوجوان تھے جو زرہ سے خالی تھے ۔

ہوازن بنو نصر کی جماعت نے جو تیر اندازی میں مشہور تھے تیروں کا مینہ  برسانا شروع کیا ۔ ذرا سی دیر میں مقدمۃ الجیش کے پاؤں اُکھڑ گئے ۔ اس طرح باقی فوج بھی بھاگ نکلی ۔
رسول الّٰلہ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ صرف چند اصحاب ثابت قدم رہے ۔ مگر اکیلے آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم تھے کہ اس حالت میں بھی دشمن کی طرف بڑھنا چاہتے تھے ۔

اور وہ اصحاب بمقتضاۓ شفقت آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کو روک رہے تھے ۔
چنانچہ حضرت عباس رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ آپکے خچر کی لگام اور حضرت ابو سُفیان رکاب تھامے ہوۓ تھے کہ آگے نہ بڑھ جائیں ۔ اور آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے :۔
“ میں  پیغمبر ہوں ۔ اس میں جھوٹ نہیں میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں “۔
حضرت عباس رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ نہایت بلند آواز تھے ۔

آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ مہاجرین و انصار کو آواز دو ۔ چنانچہ وہ یوں پُکارنے لگے:۔
“ او گروہ انصار ! او بیعت رضوان والو ! اے سورۂ بقرہ والو ! “
اس آواز کا کان میں پڑنا تھا کہ لبیک لبیک کہتے ہوۓ سب جمع ہوگئے ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے صف آرائی کے بعد حملہ کا حکم دیا ۔  چنانچہ وہ بہادری سے لڑنے لگے ۔ شدتِ جنگ کو دیکھ کر آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :۔


“ اب تنور خوب گرم ہو گیا “ ۔
لڑائی کا نقشہ بدل چکا تھا ۔ مسلمانوں پر طمانیت کا نزول ہوا ۔ کفار کو ملاء اعلٰی  کا لشکر پچکلیان گھوڑوں پر سواروں کی شکل میں نظر آ رہا تھا ۔
آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے خچر سے اُتر کر ایک مشتِ خاک لی ۔ اور شاھت الوجوہ  پڑھتے ہوۓ کفار کی  طرف پھینک دی ۔ دشمن میں سے کوئی ایسا نہ تھا جس کی آنکھوں میں وہ خاک نہ  پڑی ہو ۔

لشکر کفار کو شکست ہوئی ۔ الّٰلہ تعالٰی نے اپنے کلامِ  پاک میں جنگِ حُنین کا ذِکر اس طرح کیا  ہے:۔
“ البتہ تحقیق الّٰلہ نے تم کو مدد دی بہت میدانوں میں اور حنین کے دن جب تم اپنی کثرت پر اتراۓ ۔ پس وہ کثرت تمھارے کچھ کام نہ آئی ۔ اور زمین باوجود فراخی کے تم پر تنگ ہو گئی ۔ پھر تم  پیٹھ پھیر کر ہٹے پھر الّٰلہ نے اپنے رسول  پر اور مومنوں  پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی ۔ اور وہ فوجیں اتاریں جو تم نے نہ دیکھیں اور کافروں کو عذاب کیا ۔ اور یہی سزا ہے  کافروں کی ۔ پھر خدا اس کے بعد توبہ قبول کریگا جسکی چاہے اور الّٰلہ بخشنے والا مہربان ہے “۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :