حضور پاک صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کے تقسیمِ اوقات

منگل 6 جولائی 2021

Mansoor Ahmed Qureshi

منصور احمد قریشی

حضرت امام حسین رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ میں نے اپنے والد بزرگوار سے دریافت کیا کہ رسول الّٰلہ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کا جو وقت اپنے دولتخانہ میں گزرتا تھا ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم  اُس میں کیا کِیا کرتے تھے ۔ انھوں نے فرمایا کہ جب رسول الّٰلہ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم گھر میں داخل ہوتے تو اس میں قیام کے وقت کے تین حصے کر لیتے تھے ۔

ایک حصہ الّٰلہ کی عبادت کے لیۓ ، دوسرا اپنے اہل کے لیۓ ، تیسرا اپنی ذاتِ اقدس کے لیۓ ۔ پھر اپنے ذاتی حصہ کو اپنے اور عام لوگوں کے درمیان تقسیم کر لیتے ۔ خواص صحابہ جو دولتخانہ میں حضور پاک صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم اُنکی وساطت سے عوام کو جو دولتخانہ میں حاضر نہ ہوا کرتے، تبلیغِ احکام فرماتے ۔

(جاری ہے)

اور نصیحت و ہدایت کی کوئی بات عام و خاص سے پوشیدہ نہ رکھتے ۔
حصہ اُمت میں آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ  یوں تھا ۔ کہ اہلِ فضل کو ترجیح دیتے ۔ تاکہ حاضرِ خدمت ہو کر افادۂ عام کریں ۔ اور اس حصۂ اُمت کو بقدر حاجات دینیہ تقسیم فرماتے ۔ اہلِ فضل میں سے کسی کو ایک مسئلہ دین دریافت کرنا ہوتا ۔ کسی کو دو اور بعض کو بہت سے مسائل کے حوالے سے دریافت کرنا ہوتا ۔

پس آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم ان اصحاب حاجات کی طرف توجہ فرماتے ۔ اور ان کو وہی امور دریافت کرنے دیتے جن میں ان کی امت کی بہبودی ہو ۔ حضور پاک صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم ان کے مناسب حال احکام بیان فرماتے ۔ اس کے بعد آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم حاضرین مجلس سے ارشاد فرماتے ۔ کہ تمھیں چاہیۓ کہ بقیہ امت کو جو حاضر نہیں  یہ احکام پہنچا دو ۔

اور نیز فرماتے کہ جو لوگ ( مثلاً عورتیں ، بیمار ، غائب وغیرہ ) اپنی حاجتیں مجھ تک پہنچا نہیں سکتے ۔ تم ان کے حوائج مجھ پر پیش  کرو ۔ کیونکہ جو شخص ایسے آدمی کی حاجت بادشاہ تک پہنچاتا ہے جسے وہ خود نہیں پہنچا سکتا ۔ الّٰلہ تعالٰی قیامت کے دن اس کے قدم ( پُل صراط پر ) ثابت رکھے گا۔
اسی طرح کے ضروری مفید اُمور حضور پاک صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوا کرتے ۔

اور ایسے امور کی شنوائی نہ ہوتی جن میں کچھ فائدہ نہ ہوتا ۔ طالب و سائل دولتخانہ میں خدمتِ اقدس میں حاضر ہوتے ۔ اور آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم سے استفادۂ علوم کرتے اور لوگوں کے رہبر بن کر نکلتے۔
حضرت امام حسین رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے اپنے والد بزرگوار سے پوچھا ۔ کہ آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کا جو وقت گھر سے خارج گزرتا تھا ۔

آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم اس میں کیا کِیا کرتے تھے۔ انھوں نے فرمایا کہ آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم اکثر خاموش رہتے اور بجز مفید و ضروری امر کے لب کشائی نہ فرماتے ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو حسنِ خلق سے اپنا گرویدہ بناتے ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم ہر ایک قوم کے بزرگ کی عزت کرتے ۔ اور اس کو ان کا سردار بناتے ۔

آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو عذاب خدا سے ڈراتے ۔ کشادہ روئی اور حسنِ خلق میں کسی سے دریغ نہ فرماتے ۔ اپنے اصحاب کی خبر گیری فرماتے    ( مثلاً مریض کی عیادت ، مسافر کے لیۓ دعا اور میت کے لیۓ استغفار فرماتے) ۔ اپنے خاص اصحاب سے لوگوں کے حالات دریافت فرماتے ( تاکہ ظالم سے مظلوم کا بدلہ لیں ) آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم اچھی بات کی تحسین فرماتے ۔

اور اس کی تائید کرتے۔ اور بُری بات کی برائی ظاہر فرماتے ۔ اور اس کی تضعیف و تردید کرتے۔  آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کا حال ہمیشہ معتدل تھا ۔ اس میں اختلاف نہ تھا ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم (لوگوں کی تذکیر و تعلیم سے ) غافل نہ ہوتے تھے ۔ کہ مبادا وہ غافل ہو جائیں یا سستی کی طرف مائل ہو جائیں ۔ آپ بہرحال ( جمیع انواع عبادات کے لیۓ ) مستعد تھے ۔

حق سے کوتاہی نہ کرتے ۔ اور نہ حق سے تجاوز فرماتے ۔ جو لوگ (استفادہ کے لیۓ ) آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتے وہ خیر الناس  ہوتے ۔ سب سے افضل آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک وہ ہوتا جو سب مسلمانوں کا خیر خواہ ہوتا اور مرتبہ میں آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک سب سے بڑا وہ ہوتا جو محتاجوں کی غمخواری کرنے والا اور (مہمات امور میں ) اپنے بھائیوں کی مدد کرنے والا ہوتا ۔


حضرت امام حسین رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ بعد ازاں میں نے والد بزرگوار سے آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس کا حال دریافت کیا ۔ انھوں نے فرمایا کہ حضور پاک صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کا مجلس سے اٹھنا اور مجلس میں بیٹھنا بغیر ذکرِ الٰہی نہ ہوتا ۔ جب آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کسی مجلس میں رونق افروز ہوتے ۔ تو جو جگہ خالی پاتے ۔

وہیں  بیٹھ جاتے ۔ اور دوسروں کو بھی یہی حکم دیتے ۔ جو لوگ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھتے ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم ان میں سے ہر ایک کو ( حسبِ حال کشادہ روئی اور تعلیم و تفہیم سے ) بہرہ ور فرماتے ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر ایک جلیس یہ سمجھتا کہ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک مجھ سے زیادہ کوئی بزرگ نہیں ۔

جو شخص آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھتا یا کسی حاجت کے لیۓ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم سے کلام کرتا ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم اس کے ساتھ اسی حالت میں ٹھہرے رہتے ۔ یہاں تک کہ وہ خود واپس ہو جاتا ۔ جو شخص آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی حاجت کا سوال کرتا ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم اس کی حاجت کو پورا کرتے یا اس سے کوئی نرم بات فرماتے ۔

( یعنی وعدہ فرماتے یا فرماتے کہ فلاں سے ہمارے ذمہ قرض لے لو ) آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کی کشادہ روئی اور حسنِ خلق تمام لوگوں کے لیۓ عام تھا ۔ سب آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک حق میں برابر تھے۔
آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس حلم و حیاء و امانت و صبر کی مجلس ہوا کرتی تھی ۔ اس میں آوازیں بلند نہ ہوا کرتیں اور نہ اشاعت ہفوات ہوتی ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں سب متساوی تھے ۔ ہاں بلحاظ تقویٰ بعض کو بعض پر فضیلت تھی ۔ وہ سب متواضع تھے ۔ جو مجلس مبارک میں بڑوں کی توقیر ، چھوٹوں پر رحم کرتے ۔ اور صاحبِ حاجت کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ۔ اورمسافر و اجنبی کے حق کی رعایت کرتے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :