حضور پاک صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کا شام کا دوسرا سفر

پیر 12 جولائی 2021

Mansoor Ahmed Qureshi

منصور احمد قریشی

جب حضرت محمد صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کی عمرِ مبارک پچیس سال کی ہوئی ۔ تو آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کے صدق و امانت کا شہرہ دور دور تک پہنچ چکا تھا ۔ یہاں تک کہ زبان خلق نے آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کو امین کا لقب دے دیا تھا ۔ یہ دیکھ کر حضرت خدیجہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہا نے جو ایک معزز مالدار خاتون تھیں ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس  پیغام بھیجا ۔

کہ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم میرا مال تجارت لے کر شام کو جائیں ۔ جو معاوضہ میں اَوروں کو دیتی ہوں ۔ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کا مضاعف دوں گی ۔ حضور پاک صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے قبول فرمایا ۔
اور مال تجارت لے کر شام کو روانہ ہوۓ ۔ حضرت خدیجہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہا کا غلام میسرہ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ تھا ۔

(جاری ہے)

جو آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کرتا تھا اور آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کی ضروریات کا متکفل تھا ۔ جب آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم شام میں پہنچے ۔ تو بازار بُصرٰے میں ایک راہب نسطورا نام کی خانقاہ کے نزدیک اُترے ۔ وہ راہب میسرہ کی طرف آیا ۔ اور اُسے جانتا تھا ۔ کہا “ اے میسرہ ! یہ کون ہیں جو اس درخت کے نیچے اُترے ہیں “ ۔ میسرہ نے کہا ۔

اہلِ حرم میں سے قریش سے ہی ، راہب نے کہا ۔ سواۓ نبی کے اس درخت کے نیچے کبھی کوئی نہیں اُترا ۔ پھر اس نے پوچھا ۔ کیا ان  کی دونوں آنکھوں میں سُرخی ہے۔ میسرہ نے جواب دیا ۔ ہاں ۔ اور کبھی دور نہیں ہوتی ۔
یہ سُن کر راہب بولا ۔ “ یہ وہی ہیں اور یہی آخر الانبیاء ہیں “ ۔ کاش میں ان کو پاؤں جس وقت یہ مبعوث ہونگے “ ۔ اور میسرہ سے کہا کہ “ ان سے جدا نہ ہونا اور نیک نیتی سے ان کے ساتھ رہنا ۔

کیونکہ الّٰلہ تعالٰی نے ان کو نبوت کا شرف عطا کیا ہے “ ۔ حضور پاک صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم بازار بُصرٰے میں خرید و فروخت کر کے مکہ واپس آۓ ۔ جب حضرت خدیجہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہا نے جو عورتوں کے درمیان ایک بالا خانے میں بیٹھی تھیں ، آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کو آتے ہوۓ دیکھا ۔ تو دو فرشتے آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کے سر مبارک پر دھوپ سے سایہ کئے ہوۓ تھے ۔

میسرہ نے حضرت خدیجہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہا سے بیان کیا کہ میں نے تمام سفر میں آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کا یہی حال دیکھا ہے ۔ اور اس راہب کے قول و وصیت کی خبر دی ۔
الّٰلہ تعالٰی نے اس تجارت میں مضاعف نفع دیا ۔ حضرت خدیجہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہا نے جو دیکھا اور سُنا ۔ اس سے ظاہر ہو گیا کہ آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم بیشک ساری مخلوق کی طرف الّٰلہ کے بھیجے ہوۓ ہیں ۔

اس وقت حضرت خدیجہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہا بیوہ تھیں ۔ ان کی دو شادیاں پہلے ہو چکی تھیں ۔ اُنکی پاکدامنی کے سبب لوگ ان کو طاہرہ کہا کرتے تھے ۔ ان کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان سے ملتا ہے ۔ حضرت خدیجہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہا نے امور مذکورہ بالا کو مدِ نظر رکھ کر واپس آنے کے قریباً تین مہینے بعد یعلے بن منیہ کی بہن نفیسہ کی وساطت سے آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کو نکاح کا پیغام بھیجا ۔

آپ صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے اس درخواست کی خبر اپنے چچاؤں کو دی ۔ انھوں نے قبول کیا ۔ پس تاریخ معین پر ابو طالب اور امیر حمزہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ اور دیگر رؤساۓ خاندان حضرت خدیجہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہا کے مکان پر گئے۔ اور ان کے چچا عمرو بن اسد نے اور بقول بعض ان کے بھائی عمرو بن خویلد نے ان کا نکاح کر دیا ۔ شادی کے وقت ان کی عمر چالیس سال تھی ۔

ابو  طالب نے نکاح کا خطبہ پڑھا اور پانسو درہم مہر قرار پایا ۔
یہ آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی شادی تھی ۔ آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام اولاد حضرت خدیجہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہا ہی کے بطن سے ہوئی ۔ صرف ایک صاحبزادے جن کا نام ابراہیم تھا ۔ حضرت ماریہ قبطیہ کے بطن سے سنہ آٹھ ہجری میں پیدا ہوۓ ۔ اور سنہ دس ہجری میں انتقال فرما گئے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :